تحریر: داؤد درانی
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر موسم تغیر پذیر ہیں اور گرم خطوں میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اسی طرح دنیا کے سرد ممالک میں بھی گرمیوں کے موسم میں گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔
یورپی ممالک جہاں کا موسم گرمیوں میں خوش گوار سرد ہوتا ہے اور درجہ حرارت اوسطاً 20 اور 25 ڈگری سینٹی گریڈ کے بیچ میں ہوا کرتا تھا وہاں بھی اب پچھلے کئی سالوں سے جون ، جولائی کے مہینوں میں گرمی کی لہر آتی ہے جس میں درجہ حرارت بڑھ کر 32 ، 33 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے گو کہ گرم خطوں کے موسم کے لحاظ سے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ ہم تو 40 ،45 سینٹی گریڈ کے بھی عادی ہیں لیکن یورپ کے لوگوں کے لیے چھ ، سات ڈگری کا یہ اضافہ بھی قیامت سے کم نہیں ہوتا ۔
ہمارے ملک میں بھی ہر سال گرمی کی شدت میں پچھلے سالوں کی نسبت اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ناقابل برداشت بنتا جا رہا ہے ۔
خطہ پوٹھوار اور راولپنڈی ، اسلام آباد کے موسم کی یہ ایک خاص بات تھی کہ یہاں جب سخت گرمی پڑتی تو اس کا دورانیہ تین ، چار دن سے ذیادہ نہیں ہوتا تھا اور پھر بارش آجاتی تھی جس سے گرمی کی شدت میں کمی آجاتی تھی اور لوگ سکھ کا سانس لیتے تھے ۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اسلام آباد کی بارش کے خوش گوار اثرات چارسدہ ، مردان اور نوشہرہ پر بھی پڑتے ہیں کیونکہ جب پنڈی ، اسلام آباد میں بارش ہوتی ہے تو نوشہرہ ، چارسدہ وغیرہ میں موسم بغیر بارش کے خوش گوار ہو جاتا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں ۔
لیکن امسال اسلام آباد کے موسم میں بھی تبدیلی آئی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ پچھلے پندرہ دن سے یہاں لگاتار شدید گرمی پڑ رہی ہے اور بارش کی ساری پیشن گوئیاں غلط ثابت ہو رہی ہیں ۔
اس سال مئی کے مہینے میں گرمی کی ایک شدید لہر نے لوگوں کو حیران و پریشاں کر دیا کیونکہ عام طور پر مئی کی گرمی اسقدر سخت نہیں ہوتی مگر موسمیاتی تبدیلیوں نے خطرے کا بگل بجا دیا ہے کہ آنے والے سال اس سے بھی ذیادہ خوفناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے میدانی علاقوں میں سردیاں سکڑتی جا رہی ہیں مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ آج سے تیس ، چالیس سال قبل ستمبر کے مہینے میں جب بھی بارش ہوتی تھی تو یہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ گرمیاں ختم ہو رہی ہیں اور سرما کی آمد آمد ہے لیکن اب تو کئی سالوں سے یہ حالت ہے کہ میدانی علاقوں میں اکتوبر کے مہینے تک پنکھے تو کیا ائیر کنڈیشنرز بھی چلتے رہتے ہیں اور حقیقت میں سردی صرف دسمبر جنوری میں ہی پڑتی ہے ۔
موسموں کی انتہا پسندی کی یہ حالت ہے کہ جب دسمبر اور جنوری میں سردی پڑتی ہے تو شدید دھند کی وجہ سے کاروبار زندگی معطل ہو جاتا ہے ورنہ سردیوں میں دھند تو پہلے بھی پڑتی تھی لیکن اسکا دورانیہ اتنا ذیادہ نہیں ہوا کرتا تھا ۔
اسی طرح دسمبر کے آخر سے مارچ ، اپریل تک بارشیں ہوتی تھیں جس سے خشک سردی اور سردی کی کاٹ میں کمی آتی تھی لیکن پچھلے سال سردیوں کے موسم میں بارشیں نا ہونے کے برابر تھیں جس کی وجہ سے ہمارے آبی ذخائر میں پانی بہت کم ہوگیا اور اسکے مضر اثرات اب تک محسوس کیے جا رہے ہیں ۔ بارشوں کی کمی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح میں بھی کمی آ رہی ہے اور وہ لوگ جو پانی کے حصول کے لیے زیر زمین پانی کا استعمال کرتے ہیں مثلاً ٹیوب ویل وغیرہ انکی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔طویل عرصے سے ماہرین یہ کہ رہے ہیں کہ عنقریب ایسا وقت آنے والا ہے جب ملکوں اور علاقوں کے بیج میٹھے پانی کے حصول پر جنگیں ہونگیں تو اگر دیکھا جائے تو وہ وقت آچکا ہے ۔
کچھ عرصہ قبل جب وفاقی حکومت نے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے ایک منصوبے کا اعلان کیا تو صوبہ سندھ کے باسیوں نے اس پر شدید احتجاج کیا اور قوم پرست سندھیوں نے قومی شاہراہ بند کردی اور وفاق کے خلاف زبردست مظاہرے شروع ہوگئے جس کی وجہ سے مرکز نے اس منصوبے پر عمل درآمد بند کرنے کا اعلان کیا ۔
ابھی یہ معاملہ چل رہا تھا کہ بھارت نے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کا اعلان کر دیا جس کی وجہ سے ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ اگر واقعی بھارت نے اس پر عمل کیا تو پاکستان کے تمام دریا خشک ہو جائینگے ۔
پاکستان کے حکمران بار بار یہ کہ رہے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو پھر ہمارے پاس بھارت کے ساتھ جنگ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا یعنی جنگ ہوگی تو کسی علاقے یا نظریے پر نہیں بلکہ پانی کے حصول پر ہوگی ۔
پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک نے اس انتہائی اہم ایشو پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔ملک میں درختوں کی قانونی اور غیر قانونی کٹائی زوروں سے جاری ہے اور شجر کاری کی طرف توجہ بہت کم ہے ۔ جس درخت کے کٹنے میں چند منٹ لگتے ہیں اسی درخت کو چھوٹے سے پودے سے درخت بننے تک کئی سال لگتے ہیں ۔ اگر یہی حالت رہی تو ہم اپنی آنے والوں نسلوں کے لیے ایک بنجر ، اجاڑ اور دوزخ کی طرح گرم ملک چھوڑنے جا رہے ہیں ۔