سرکاری جامعات کے اساتذہ بیرونِ ملک اسکالرشپس پر جاکر غائب

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر مختلف ادوار میں متعدد اسکالرشپ اسکیمیں متعارف کرائی گئیں۔ ان اسکیموں کا مقصد نوجوان اسکالرز، محققین اور اساتذہ کو بین الاقوامی جامعات میں اعلیٰ تعلیم یا ریسرچ کے مواقع فراہم کرنا تھا تاکہ وہ واپس آ کر ملک کے علمی، تحقیقی اور تدریسی معیار کو بہتر بنا سکیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے قیام (2002) کے بعد اس عمل کو مزید منظم کیا گیا اور ہر سال اربوں روپے کے وظائف دیے جانے لگے۔ تاہم اس نظام میں شفافیت اور جواب دہی کی مسلسل کمی کی وجہ سے اسکالرشپس کا غلط استعمال ایک سنگین مسئلہ بن کر ابھرا۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2024-25 کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی مختلف سرکاری جامعات کے درجنوں اساتذہ نے 77 کروڑ روپے سے زائد کی اسکالرشپس حاصل کیں اور بیرون ملک جا کر واپس نہ آئے۔ یہ انکشاف نہ صرف مالی بدعنوانی کا مظہر ہے بلکہ تعلیمی و اخلاقی زوال کی تصویر بھی پیش کرتا ہے۔
اس کی مزید تفصیل کچھ یوں ہے کہ یو ای ٹی لاہور: 26 کروڑ روپے سے زائد کی اسکالرشپس۔
پنجاب یونیورسٹی: 18 کروڑ روپے سے زائد۔
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان: 14 کروڑ سے زائد۔
نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی، ملتان: 3 کروڑ 84 لاکھ۔
غازی یونیورسٹی، ڈی جی خان اور یو ای ٹی فیصل آباد: 6 کروڑ روپے سے زائد۔
یہ تمام اساتذہ، جو بظاہر تعلیمی خدمت کے لیے ان اسکالرشپس پر بھیجے گئے تھے، بیرون ملک قیام پذیر ہو کر غائب ہو گئے اور قومی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
اس نظام میں موجود کمزوریوں کو دور کیا جائے۔
یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ضمانتی نظام انتہائی کمزور ہے، اسکالرشپ حاصل کرنے والے اساتذہ کی واپسی یقینی بنانے کے لیے مؤثر قانونی یا مالی ضمانتیں نہیں لی گئیں۔
مانیٹرنگ کا فقدان ہے، متعلقہ یونیورسٹیوں اور HEC کی جانب سے وقتاً فوقتاً مانیٹرنگ اور فالو اپ کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔
احتساب کا بحران ہے، اگرچہ آڈیٹر جنرل نے رقم کی ریکوری اور اساتذہ کو مفرور قرار دینے کی سفارش کی ہے، مگر ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ ایسی سفارشات پر عملدرآمد سست یا جزوی ہوتا ہے۔

یہ اسکینڈل صرف مالی بدعنوانی کا ہی مسئلہ نہیں، بلکہ قومی اعتماد اور اعلیٰ تعلیم کے نظام پر کاری ضرب بھی ہے۔ استاد کو قوم کا معمار کہا جاتا ہے، لیکن جب یہی معمار اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کریں تو نئی نسل کو دی جانے والی تعلیم و تربیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اس سے ناصرف طلبہ میں مایوسی پیدا ہوتی ہے بلکہ ملک کی بیرونی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اسکالرشپ حاصل کرنے والے افراد کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے قانونی ضمانتیں، اثاثہ جات کی گارنٹیاں اور بونڈ سسٹم نافذ کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان ممالک کی جامعات اور حکومتیں ہر مرحلے پر اسکالرز کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ان اصولوں کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل چند تجاویز پر عمل کیا جائے۔
قانونی بونڈز کو مضبوط بنایا جائے، جن میں واپسی نہ کرنے کی صورت میں جائیداد کی قرقی اور قانونی کارروائی شامل ہو۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹیوں کے اندر باقاعدہ مانیٹرنگ سیل قائم کیے جائیں تاکہ بیرون ملک جانے والوں کا مسلسل فالو اپ ممکن ہو۔
ضمانتیوں (Guarantors) سے فوری ریکوری کی جائے اور انہیں بھی قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے۔
اساتذہ کے انتخاب کے معیار کو سخت کیا جائے تاکہ صرف وہی افراد اسکالرشپ کے حقدار ہوں جو واقعی قومی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں۔
پبلک لسٹنگ سسٹم متعارف کروایا جائے تاکہ غائب ہونے والے افراد کے نام سرکاری ویب سائٹس پر ظاہر کیے جائیں، اور بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی نگرانی ممکن ہو۔

پاکستان کے تعلیمی نظام کو اس وقت شدید بحران کا سامنا ہے اور اگر فوری اور سخت اقدامات نہ کیے گئے تو اعلیٰ تعلیم کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ بیرون ملک جانے والے اساتذہ کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے جہاں قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے، وہیں مستقبل کی نسلوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ حکومت، جامعات اور معاشرہ سب کو اس رویے کے خلاف متحد ہو کر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ “علم” کا سفر بداعتمادی اور بددیانتی کے دلدل میں نہ اتر جائے۔

مزید خبریں