سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتا!

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

چیئرمین ایف بی آر کی مضحکہ خیز گفتگو

منیر نیازی صاحب کا بڑا معروف شعر ہے

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

آج جب چیئرمین ایف بی آر کی پوسٹ بجٹ گفتگو اخبار میں پڑھنے کا موقع ملا تو یہ شعر یاد آیا
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے ہیں
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
اب ذرا ان کی معصومیت ملاحظہ فرمائیے
چیئرمین ایف بی آر فرماتے ہیں کہ پاکستان میں پانچ فیصد افراد کو ٹیکس دینا ہے لیکن وہ بھی نہیں دیتے

تو پھر اس میں میرا قصور ہے چیئرمین صاحب ؟
نکلواؤ ان سے جا کے ٹیکس۔ یہ جو آپ نے اتنا سٹاف رکھا ہے۔
اپنے دفتر میں ہزاروں لوگ نوکریاں کر رہے ہیں۔
کروڑوں اربوں روپیہ تنخواہ اور مراعات میں ہر مہینے ان کے لئےنکل جاتا ہے
اور یہ جو آپ کے ریوینیو افسران ہیں جو ٹیکس لینے جاتے ہیں یا نوٹس بھیجتے ہیں اداروں کو
فیکٹریوں کو
بزنس مینوں کو
اور پھر ان سے مک مکا کر لیتے ہیں ان کو کیوں نہیں سولی پہ لٹکاتے ؟
معصوم چیئرمین ایف بی آر کیوں نہیں ان کی نوکریاں ختم کرتے ؟
کیوں نہیں ان کو سزائیں دلوا کے جیلوں میں بھیجتے؟
اس لیے کہ سارا کھاتہ ،سارا حساب کتاب آپ کے سامنے آپ کی ناک کے نیچے ہو رہا ہوتا ہے
اور آپ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اس قسم کے بیانات داغتے رہتے ہیں
لیکن ہمیں پتہ ہے کہ ایف بی آر میں ایک گارڈ سے لے کر چیئرمین تک سبھی اس حمام میں ننگے ہیں اور سب کھاتے ہیں
جتنے بھی پاکستان کے ریوینیو اکٹھا کرنے والے ادارے ہیں وہ جس طرح عوام کی کھال اتارتے ہیں کئی باتوں کا تو عوام کو پتہ بھی نہیں چلتا
اور کئی کا پتہ چل بھی جاتا ہے
چلیں میں ایک مثال دیتا ہوں
ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے انسپیکٹر ڈیش ڈیش ڈیش کی میرے ساتھ سلام دعا ہو گئی تو مجھے کہنے لگا شہریار صاحب فیس سیون اور ایٹ میں جتنی مارکیز ہیں
جتنے ہوٹلز ہیں
جتنے پرائیویٹ اسکولز ہیں یہ میری حدود میں ہیں
میں ان کو ٹیکس بھیجوں گا کسی کو چار لاکھ
کسی کو پانچ لاکھ
کسی کو سات لاکھ
آپ ان سے معاملات طے کر لیجئے گا
میں آپ کو بتا دوں گا کہ اس کو کیا نوٹس بھیجا ہے ۔
اگر کسی کو پانچ لاکھ کا ٹیکس آیا ہے تو آپ اس سے دو ڈھائی لاکھ طے کر لیں آدھا آدھا ہم رکھیں گے، باقی ان کو تھوڑا ٹیکس ڈال دیں گے
اور اس انسپیکٹر نے اپنی جاب کی دو سال کے اندر 45 لاکھ روپے کی گاڑی خریدی تھی
چیئرمین ایف بی آر اگر آپ کو پتہ ہے کہ پانچ فیصد افراد کو ٹیکس دینا ہے اور وہ نہیں دیتے تو آپ ان کی فیکٹریاں کیوں نہیں بند کرواتے ؟
کیوں نہیں ان کے ٹیلی فون نمبر
ان کے پاسپورٹ
ان کے شناختی کارڈ بلاک کرواتے ؟
کیونکہ وہاں سے کروڑوں، اربوں روپیہ ماہانہ آپ کے افسران کی اور آپ کی جیبوں میں جاتا ہے ۔
ایک معمولی ریڑھی والا جو سڑک کنارے بیٹھا پھل بیچ رہا ہوگا
یا کسی نے گول گپے کی ریڑھی لگائی ہوگی تو حکومتی ادارے آ کے نہ صرف اس کی ٹھکائی کریں گے
بلکہ اس کی ریڑھی کو کرین سے اٹھوا کر زمین پر پٹخیں گے اور پھر ویڈیو بنا کر اپنی کارکردگی دنیا کو دکھائیں گے
شرم آنی چاہیے آپ لوگوں کو۔
آپ کا دوسرا بیان کہ سالانہ 7100 ارب روپے کے ٹیکس گیپ کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اچھا تو آپ جو اتنے سالوں سے آئی ایم ایف کے چکر میں عوام پر مختلف ٹیکسز کا بوجھ ڈال رہے ہیں
25 کروڑ عوام کا جینا دو بھر ہو گیا ہے
بجلی، گیس میں، پیٹرولیم کی مصنوعات میں، اشیائے خرد و نوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے لیکن پھر بھی آپ کا یہ گیپ پورا نہ ہوا
7100 ارب روپے کا ٹیکس گیپ ہے
اور لعنت بھیجتا ہوں ایسے اداروں اور افسروں پر۔
میں سمجھتا ہوں کہ لعنت بھیجنا کوئی جرم نہیں ہے۔ گالی دینا اور لعنت بھیجنا تو پوری پاکستانی قوم کا صبح سے لے کر شام تک کا مشغلہ ہے
اس لیے آپ اس بات پہ کیس بھی نہیں کر سکتے۔
ایک اور دلچسپ انفارمیشن آپ نے عوام سے شیئر کی کہ اسمگلنگ روکنے کے لیے کارگو ٹریکنگ سسٹم متعارف کرا رہے ہیں اور مختلف علاقوں میں ڈیجیٹل انفورسمنٹ اسٹیشن قائم کر رہے ہیں۔

اچھا یہ جو بارڈر پر اسمگلنگ ہوتی ہے، جہاں سے پیٹرول ایران کا لا کر بیچا جاتا ہے
افغانستان کے راستے منشیات، اسلحہ ،ٹیکس فری گاڑیاں !الیکٹرانک کا سامان، بڑے بڑے کنٹینرز میں بھر کے سرکاری اداروں، کسٹمز، انٹیلیجنس کے اداروں، ایکسائز کے اور کوسٹ کارڈز فوج کی چوکیوں کے سامنے سے ہو کے گزرتا ہے
تو کیا وہ میں نے روکنا ہے؟ ہمیں باتیں سناتے ہو۔
اسمگلنگ روکنے کے لیے کارگو ٹریکنگ سسٹم لگوا رہے ہیں
اور کتنا عوام کو بیوقوف سمجھتے ہو؟ آپ کی ساری سرحدوں پہ جو سمگلنگ ہوتی ہے اس میں کس کے لوگ کھڑے ہیں؟ کن کن اداروں کے لوگ وہاں تعینات ہیں اور وہ روزانہ پاکستان کو ممکنہ طور پر اربوں روپے کا ٹیکس کھا جانے کی ذمہ دار نہیں ہیں؟

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

چیئرمین ایف پی آر

مزید خبریں