سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
آج تمام پاکستانی ٹیلی ویژن پر اینکرز اور تجزیہ کار صرف ایک ہی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے کہ کیا بھارت پھر پاکستان پر جنگی کاروائی کرے گا ؟
بات واضح ہو گئی
جی ضرور کرے گا
کیونکہ آج تمام چینلز پر پرائم ٹائم پر یہی موضوع زیر گفتگو تھا
تو جیسا کہ ہم نے چھ اور سات مئی کی درمیانی رات بھارت کو پاکستان میں بزدلانہ کاروائی کرتے ہوئے دیکھا اس سے پہلے وفاقی وزیر اطلاعات اور وفاقی وزیر دفاع کے بیانات اسی شام میڈیا کی زینت بن چکے تھے کہ بھارت سے جنگ ناگزیر ہے
اور بھارت کسی بھی وقت پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔
عام قاری جاننے سے قاصر ہے کہ کس طرح ان دونوں کو اور فوجی ترجمان کو یہ علم تھا کہ اگلے چند گھنٹوں کے دوران پاکستان کے مختلف شہروں پر بھارتی میزائل داغے جائیں گے ؟
عام قاری یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ کیا انڈیا نے ان کو بتایا تھا ؟پاکستان کو پہلے سے آگاہ کیا تھا؟
ظاہر ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اس کا اعتراف کبھی نہ کرپاے گا
لیکن بھارتی میڈیا نے بڑے زور وشور سے اس بات کا اعلان کیا کہ پاکستان پر حملے سے پہلے انہیں بتا دیا گیا تھا کہ کون کون سے مقامات پر دہشت گردوں کے کیمپ اڑا دیے جائیں گے۔
اب ان تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کیا بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی دوبارہ تیاری کر رہا ہے۔
تو اس بات کا جواب تو ہمیں 12 مئی کو مل چکا ہے جب نریندر مودی نے کہا تھا کہ یہ سیز فائر ہے، جنگ ختم نہیں ہوئی
جب تک کہ پاکستان سے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا جو کہ بھارت میں آ کر مظلوم شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں تب تک جنگ جاری رہے گی اور بھارت کی سرکاری ترجمان کی طرف سے اس بات کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے کہ 18 مئی کے بعد سندور فیز ٹو کا اغاز ہوگا
جبکہ ہم یہاں معرکہ حق پورے قومی جوش و جذبے سے منا رہے ہیں۔
مختلف جگہ پہ فنکشنز کروائے جا رہے ہیں۔ جہاں وزیراعظم، جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین اور آرمی چیف حاضر ہوتے ہیں
ملی نغمے گائے جاتے ہیں
جیت کا جشن منایا جاتا ہے پورے پاکستان میں پاک فوج زندہ باد اور وزیراعظم زندہ باد کے پوسٹرز اور بڑے بڑے بینرز آویزاں ہیں
ظاہر ہے کہ ان پر کروڑوں نہیں اربوں روپیہ خرچ آ چکا ہے
کیونکہ صرف ایک وزیراعظم اور آرمی چیف کا پروگرام آرگنائز کرانے میں جو سیکیورٹی اور دوسرے انتظامات پر خرچ ہوتا ہے وہ کروڑوں سے اوپر ہوتا ہے۔
اب مجھے تکلیف یہ ہے کہ چلیں آپ کہتے ہیں کہ آپ نے جنگ جیت لی
کوئی بات نہیں
ہمیں 65 کی جنگ کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ ہم نے جیتی
71 میں بھی یہی کہا گیا کہ ہم نے جنگ جیتی
سیاچن پہ بھی یہی بولا گیا لیکن حقیقت ہم سب جانتے ہیں۔
جب پاکستان 71 میں جنگ ہارا تھا تو اس کے فوجیوں نے ہتھیار ڈالے تھے اور ہمارا علاقہ بھارت کے قبضے میں چلا گیا تھا اور پاکستان دو لخت بھی ہو گیا تھا
لیکن یہ کون سی جیت ہے جس میں کسی ایک بھارتی فوجی نے ہتھیار نہیں ڈالے نہ بین الاقوامی میڈیا نے اعلان کیا کہ کون جیتا کون ہارا۔
نہ کوئی بھارتی علاقہ فتح کیا ۔
سیز فائر پہ اتنے بڑے بڑے جشن۔
میرا تو ایسے حکمرانوں پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے اور ایسی عوام پر جو واقعی سمجھ رہی ہے کہ وہ جنگ جیت گئی۔
جنگ ابھی باقی ہے میرے دوست
یہ تو صرف سیز فائر ہے۔
دونوں مالک کے ڈی جی ایم اوز کی ملاقاتیں ہو چکی ہیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔
اب وہ جب ملیں گے تو بیسیوں مسائل پر گفتگو ہو گی
جس میں سرفہرست کشمیر کا مسئلہ ہوگا
بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی سب سے پہلے نمبر پہ تو پانی کا ایشو حل کرنا ہوگا کیونکہ سندھ طاس معاہدے کو بھارت نے معطل کر دیا ہے اور وہ اس کو بحال کرنے پر تیار نہیں
جبکہ ہمارے حکمران بشمول فوجی ترجمان بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر بھارت نے پانی روکا تو اس کے دریاؤں میں پانی کی جگہ خون بہے گا اور یہ کہ جہاں جہاں بھارتی انسٹالیشن ہوں گی پانی روکنے کے لیے ان کو ہماری فوج ٹارگٹ کر کے تباہ کر دے گی
اور فوجی ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارت پانی بند کرنے کی جرات نہیں کر سکتا
میں یہی عرض کروں گا کہ وہ جرات کر چکا۔
اس نے روک لیا پانی کو، اور پانی روکنے کے پروجیکٹ شروع کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔
بھارت میں دریائے چناب کے پانی میں پاکستان کا حصہ کم کرنے پر غور شروع ہو چکا ہے
اور جہلم اور سندھ پر پانی روکنے کی منصوبہ بندی اور عمل درامد تیز کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں
میں جو آنے والے دنوں میں منظر نامہ دیکھ رہا ہوں نہایت ہی ہولناک ہے
دونوں طرف گھمسان کی جنگ ہوگی
اربوں ڈالر کے انٹرسٹرکچر کو نقصان پہنچے گا
ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوں گی
اور پھر ایک عام آدمی پر معیشت کا بوجھ پڑے گا۔
پھر وہ زندگی بھر ٹیکس دیتا رہے گا
کبھی جنگ کا ٹیکس
کبھی بجلی اور پانی میں ٹیکس
کبھی پیٹرول میں ٹیکس۔
بھارتی عزائم بے نقاب کرنے کے لیے پاکستان نے سفارتی مہم شروع کر دی ہے ،جس کی سربراہی بلاول بھٹو زرداری کریں گے
ایک اعلی سطحی وفد تشکیل دے دیا گیا ہے۔
یہ ترتیب اس کے بعد ہوئی ہے جب بھارت نے پوری دنیا میں اپنے سفارت کاروں کو متحرک کر کے ،سات ٹیمیں تشکیل دی ہیں اور دنیا میں بھیج دیا ہے
تاکہ وہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے
اور یہ کہ یہاں سے بھارت میں دہشتگردی کروائی جاتی ہے اور پھر وہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا اعترافی بیان پیش کرے گا اور ہماری پارلیمنٹ میں تقاریر اور سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے بیان جو وہ طالبان کے حق میں دیتے رہے ہیں۔
یہ سارے ثبوت بین الاقوامی برادری کو بھارت کی جانب سے دیے جائیں گے۔
تو کیا بلاول بھٹو زرداری اور ہماری ٹیم۔ دنیا کو متاثر کر سکے گی کہ بھارت جھوٹ بول رہا ہے
جبکہ کئی بار بین الاقوامی سطح پر پاکستان میں ایسی سرگرمیوں کے کیمپوں کی تفصیلات شائع ہو چکی ہیں۔
اور ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں اس کے بیان یاد کریں جو وہ پھٹ پڑا تھا پاکستان پر
کہہ رہا تھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ڈبل گیم کھیل رہی ہے
ہم سے اربوں ڈالر کھا کے دہشت گرد تیار کر رہی ہے۔
ایک بیان نظر سے گزرا ہے جس میں نواز شریف نے کہا ہے کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ہر میدان میں ملک کو ترقی مل رہی ہے۔
عوام کو مزید ریلیف دیا جائے گا
جب سے میں نے یہ خبر پڑھی ہے تب سے میں ڈھونڈ رہا ہوں کہ کون کون سے ایسے میدان ہیں جہاں پاکستان کو ترقی مل رہی ہے؟
اور کہاں ہیں وہ عوام جنہیں مزید ریلیف دیا جائے گا؟
چلتے چلتے ایک اور خبر نظر سے گزری
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ
فوج مخالف باتیں کرنے والوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟
ابھی جنگ بندی کو ایک ہفتہ نہیں گزرا اور پھر شامت آگئی ایک مخصوص سیاسی جماعت کے ورکرز کی۔
فوج مخالف باتیں کرنے والوں کا احتساب کا واضح مطلب یہی ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کے کارکن ہیں
جو گزشتہ ساڑھے تین سال سے ظلم ستم اور سعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔