تحریر: انجینئر افتخار چودھری
زندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتا۔ ہر شخص کے نصیب میں ایک مختلف کہانی لکھی ہوتی ہے، جس میں خوشیوں کے کچھ لمحے اور غم کی طویل شامیں شامل ہوتی ہیں۔ آج جب میں گجرانوالہ سے جہلم کے سفر پر نکلا، تو میرے دل میں ایک ایسی اداسی بھری ہوئی تھی جس کا بوجھ شاید الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ میرے چھوٹے بھائی، جس کی معصومیت اور پیار میری زندگی کا حصہ تھا، اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ ایک ہلکی سی امید اور دل کو تسلی دینے والے لمحات کے ساتھ، میں اس سفر پر تھا جس کا ہر موڑ مجھے یادوں کے بوجھ تلے دباتا جا رہا تھا۔
زندگی میں ایسا پہلا موقع نہیں آیا تھا کہ میرا دل اتنا بوجھل ہوا ہو، لیکن اس بار شاید غم کچھ زیادہ گہرا تھا۔ واپسی پر میری اہلیہ نے اچانک ایک فرمائش کی، جو انہوں نے اپنی زندگی میں شاید کبھی نہیں کی تھی۔ انہوں نے کہا، “آج مجھے ایک اچھے ہوٹل میں کھانا کھلائیں۔” یہ بات میرے لیے حیرت کا باعث تھی، کیونکہ ساری زندگی میں نے کبھی انہیں اپنی خواہشات کو یوں بیان کرتے نہیں دیکھا۔ اللہ نے مجھے زندگی میں بہت کچھ دیا، بڑے بڑے اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا، دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا، لیکن میں نے کبھی اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ میری اہلیہ بھی ہمیشہ میرے ساتھ انتہائی سادگی سے زندگی بسر کرتی رہیں، اور آج جب انہوں نے یہ خواہش کی تو یہ میرے دل کو کچھ زیادہ ہی چھو گئی۔
ہم وزیرآباد کے قریب دریائے چناب کے کنارے ایک خوبصورت ہوٹل “کنارہ ہوٹل” پہنچے، جہاں کا ماحول دیکھ کر دل کو سکون ملا۔ دریائے چناب کے کنارے واقع یہ ہوٹل ایک مثالی مقام تھا، جیسے کسی خواب کا حصہ ہو۔ یہاں کے انتظامات، ماحول اور خوبصورتی نے میری آنکھوں کو محظوظ کیا۔ کھانے کے آرڈر دیتے وقت میں نے سوچا کہ ہمیں ہمیشہ اعتدال کا دامن تھامنا چاہیے۔ اکثر اوقات لوگ اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ بیٹھ کر بے حساب آرڈر دیتے ہیں اور پھر کھانا ضائع ہونے پر اُسے پارسل کرا دیتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ کھانا اتنا ہی آرڈر کرنا چاہیے جتنا کھایا جا سکے۔ ہم نے سادہ اور متوازن غذا کا انتخاب کیا، جس میں ہاف مٹن کڑاہی، ایک سبزی، اور باربی کیو کی ڈش شامل تھی۔
یہاں میرے ذہن میں ایک بات آئی، کہ شاید یہ چھوٹی سی بات ہے، لیکن اس میں ایک گہری سوچ پوشیدہ ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اصولوں کو اہمیت دی ہے، چاہے وہ سعودی عرب کی بڑی کمپنیوں میں میرا اعلیٰ عہدہ ہو یا پاکستان میں واپسی پر کسی چھوٹے ادارے میں کام۔ میں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ اپنے مقام اور پوزیشن کا استعمال صرف اصولی اور جائز مقاصد کے لیے کروں۔ 2002 میں جب میں پہلی مرتبہ سعودی عرب سے پاکستان آیا، تو میرے ساتھ بہت سے تلخ تجربات وابستہ تھے۔ اس سفر میں میرا سامنا ناانصافی اور سیاست سے ہوا، جس کے باعث مجھے پاکستان واپس آنا پڑا۔ یہاں میں نے ٹویوٹا موٹرز میں کام شروع کیا اور وہاں بھی اصولوں کی پاسداری کو اپنی اولین ترجیح بنایا۔
آج کے اس تجربے نے مجھے یہ سکھایا کہ زندگی میں سکون کا اصل راز سادگی اور میانہ روی میں ہے۔ “کنارہ ہوٹل” کا یہ خوبصورت ماحول اور دریائے چناب کا سکون آج میرے دل کی اداسی کو شاید ختم نہ کر سکا، لیکن اس نے مجھے اس بات کا احساس دلایا کہ زندگی میں چند لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب ہم تھوڑی دیر کے لیے اپنے مسائل سے دور ہو کر سکون حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ “اداس کنارہ” میرے لیے ایک ایسی یاد بن گیا ہے، جسے میں شاید کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔ یہ کالم ان تمام لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے جو زندگی کے مصائب میں پھنسے ہوئے ہیں اور سکون کے لمحے تلاش کر رہے ہیں۔ زندگی کے اس اداس کنارے پر آکر ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ زندگی کی اصل خوشی سادہ لمحات میں پوشیدہ ہوتی ہے۔
کاروباری اخلاقیات اور صارفین کی جیبوں پر ڈاکہ زنی
لیکن اس سفر کا ایک تلخ پہلو بھی میرے سامنے آیا۔ جیسے ہی کھانے کا بل میرے سامنے آیا، مجھے یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ آج کل کے ہوٹل مالکان اور کاروباری حضرات کس طرح اپنے گاہکوں کو دیکھتے ہی ان کی جیبیں خالی کرنے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں۔ جب ایک کسٹمر اچھے ماحول، عمدہ کھانے اور پرسکون لمحوں کی تلاش میں آتا ہے، تو اس کا مقصد محض ایک اچھی یاد بنانا ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، کئی ہوٹل مالکان اس موقع کو اپنے منافع میں اضافے کا موقع سمجھ لیتے ہیں۔ ایک ہی چیز جو عام حالات میں تین ہزار کی ہو، اسے چھ ہزار میں بیچنے سے نہ صرف صارف کی جیب پر بھاری بوجھ ڈالا جاتا ہے بلکہ اس کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی جاتی ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کاروبار میں صرف خوش اخلاقی ضروری نہیں بلکہ مناسب دام بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک کامیاب بزنس مین وہ ہوتا ہے جو اپنے صارف کو مناسب قیمت پر بہترین معیار فراہم کرتا ہے، نہ کہ اسے موقع دیکھ کر لوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ کاروباری دنیا میں اعتماد جیتنا بہت مشکل ہوتا ہے اور اسے کھونا بہت آسان۔ صارفین کو مناسب دام پر اچھی سروس فراہم کرنا، یہی کامیاب کاروبار کی بنیاد ہے۔ ایک ایماندار اور بااخلاق بزنس مین کبھی بھی اپنے صارف کو غیر ضروری طور پر لوٹنے کا نہیں سوچتا، بلکہ وہ مناسب قیمت میں بہترین سروس فراہم کرنے کو اپنی ترجیح بناتا ہے۔
ہوٹل مالکان کو چاہیے کہ وہ اپنے گاہکوں کو اپنی کمائی کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے انہیں اپنی کامیابی کا حصہ بنائیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ روشنی ضروری ہے کہ کاروبار صرف پیسہ کمانے کا نام نہیں بلکہ اعتماد جیتنے کا نام ہے۔ “کنارہ” جیسی خوبصورت جگہوں کو ایک سبق کے طور پر دیکھتے ہوئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی میں سادگی اور ایمانداری ہی سکون کا باعث بنتی ہے۔ اگر ہوٹل مالکان اور کاروباری حضرات اس بات کو سمجھ جائیں کہ منافع اور اعتماد کا توازن برقرار رکھنا ہی اصل کامیابی ہے تو یقینی طور پر وہ لوگ صارفین کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔