جمعرات,  21 نومبر 2024ء
مولانا کا کردار

شہریاریاں۔۔۔تحریر: شہریار خان

مولانا فضل الرحمن نے حکومت کے آئینی ترامیمی پیکج کی ایسی کی تیسی کر دی۔۔ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے تمام رہنماؤں کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں بلکہ قہقہے صرف اور صرف مولانا فضل الرحمن کی مرہون منت ہیں مگر اب تک بانی پی ٹی آئی ان کے کردار کے حوالہ سے کوئی بھی جواب دینے کو تیار نہیں۔

اسی لیے اب تک تمام پی ٹی آئی کارکنان بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ مولانا کو اب ڈیزل کہنا ہے یا پھر مولانا صاحب کہنا ہے؟۔۔انہیں عزت دینی ہے یا پھر 2014 کے دھرنے کی طرح مولانا کی تضحیک کے لیے بینرز بنوانے ہیں؟؟؟۔۔

آج قیدی نمبر 420 کو اڈیالہ جیل میں ملنے کے لیے جانے والے صحافیوں نے جب پوچھا کہ آئینی پیکج کو پیش ہونے سے روکنے میں مولانا کے کردار کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں تو انہوں نے اس بات کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔

یعنی اب بھی مولانا فضل الرحمن کے کردار سے متعلق پی ٹی آئی کے کارکنان کوئی بیان دینے کے قابل نہیں، گالی دینی ہے یا سر پہ بٹھانا ہے ابھی یہ طے ہونا باقی ہے۔۔ آئینی ترمیم کو منظوری سے روکنے کا سہرا مولانا کے سر ہے مگر اس التوا کے سب سے بڑے بینیفشری کہتے ہیں ابھی کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔

ویسے تو بانی پی ٹی آئی کبھی کسی بھی بیانیہ سے مکرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں مگر پوچھا تو جا سکتا ہے کہ اگر اس محمود خان اچکزئی جیسے سیاستدان کی پیروڈی آپ سٹیج پر چڑھ کے کر سکتے ہیں تو مولانا فضل الرحمن کے آئینی ترامیم پر کردار کی کھل کے تعریف کیوں نہیں کر سکتے؟۔

کل تک پی ٹی آئی کا سرکاری موقف ہوا کرتا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کا کوئی کردار نہیں، آج اگرمولانا فضل الرحمن کا اپنے پرانے موقف پر ڈٹے رہنا آپ کے لیے فائدے کا باعث بنا ہے تو پھر اس کردار کی تعریف کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیئے تھی۔۔ کیونکہ آپ کب اپنی کہی ہوئی بات سے مکرنے پر شرمائے ہیں؟۔

بات بہت سادہ سی تھی مگر اتنی بھی نہیں تھی کہ بانی پی ٹی آئی فوری طور پر کہہ دیتے کہ مولانا فضل الرحمن کا کردار بہت شاندار رہا کیونکہ اگر مولانا صرف چند وزارتوں اور کمیٹیوں کی سربراہی لے کر یا کچھ لیے بغیر بھی حکومتی ترامیم کا ساتھ دے دیتے تو سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی اور کپتان کا ہونا تھا۔

اب مولانا کے ایک انکار کے باعث اسد قیصر نے جے یو آئی سربراہ کو ظہرانہ پر مدعو کر لیا۔۔ اب تک پی ٹی آئی والے مولانا کے گھر جاتے رہے ہیں مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی پی ٹی آئی کے کسی راہنما کے گھر گئے۔

مولانا فضل الرحمن جب پہلی مرتبہ اسد قیصر کے گھر پہنچے تو وہاں ہمارے ایک دوست صحافی ٹکا ثانی نے پوچھا کہ آپ اسد قیصر کے گھر آج کھانے کی دعوت پر آئے ہیں، کیسا محسوس کر رہے ہیں؟۔ تو مولانا نے برجستگی کے ساتھ کہا یہ میرے گھر بہت مرتبہ کھا چکے ہیں آج میں ان سے کھاؤں گا تو کیا ہو گیا؟۔

اسی ظہرانہ کے دوران ہی ہمارے جو صحافی دوست اڈیالہ جیل میں قیدی نمبر 420 سے ملنے جاتے ہیں انہوں نے سوال کیا کہ آپ آئینی ترامیم والے معاملے پر مولانا فضل الرحمن کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ اس پر فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔

صحافی دوستوں نے پوچھا کہ کیا آپ کو اب بھی مولانا فضل الرحمن پر کوئی شک ہے؟۔ تو کپتان جی تذبذب کی کیفیت کا شکار دئیے پھر بولے اگر مولانا جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے تو اچھا ہے۔۔ یعنی ابھی بھی کپتان کو مولانا پہ شک ہے۔۔ وہ سو فیصد یقین کے ساتھ مولانا کی تعریف نہ کر پائے۔

ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ مولانا پر اب تک کپتان کو شک کیوں ہے کہ ایک دوست نے مولانا فضل الرحمن کی ایک پرانی وڈیو شیئر کر دی۔۔ وڈیو میں مولانا فضل الرحمن یہ کہتے دکھائی دئیے کہ یہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ قیامت کے روز تم سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس ہمارا ایک بندہ نہیں آیا تھا جس نے تمہیں ایاک نعبدو ایاک نستعین سنایا تھا؟۔ پھر بولے کہ خدا کا خوف کرو، یہ الفاظ اللہ نے اپنے پیغمبروں کے لیے استعمال کیے ہیں ایک فاسق و فاجر، غلیظ انسان کو پیغمبر کا مقام دے دیا ہے؟۔۔۔

ہم ایک فتنے کا مقابلہ کر رہے ہیں۔۔ لعنت ہو ایسی جماعت پر لعنت ہو ایسے لوگوں پر۔۔ آج ایک ایک چیز کھل کر سامنے آ رہی ہے۔۔ فارن فنڈنگ کیا ہے؟۔ اسرائیل اور انڈیا کا پیسہ ہے۔۔۔ یہ سب مولانا فضل الرحمن نے کہہ رکھا ہے مگر آج سیاست کے لیے اگر وہ قیدی نمبر 420 کی جماعت کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں جس پر وہ لعنت بھیج چکے ہیں،جس جماعت کو اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ ملتی رہی ہو وہ اس جماعت کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، ظہرانہ اور عشائیہ تناول کر سکتے ہیں تو پھر سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

پھر جب شہباز شریف خود وزیر اعظم ہوتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کے گھر جائیں اور انہیں کہیں کہ ہم ایک مرتبہ پھر آپ کی سرپرستی چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں ہم ایک مرتبہ پھر ساتھ چلیں۔ اس پر مولانا فضل الرحمن نے جواب دیا کہ ہم تو وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے کھڑے تھے، آپ نے ہی راستہ بدلا ہے۔

مزید پڑھیں: ابو بچاؤ مہم جاری ہے۔

کوئی پوچھے تو سہی کہ جناب آپ کی پوزیشن بھی تبدیل ہو چکی ہے، آپ جسے یہودی ایجنٹ کہتے تھے، جس جماعت کے لوگوں کو فتنہ کہتے تھے، جس جماعت کو اسرائیل اور بھارت سے فنڈ لینے والی جماعت کہتے تھے، جسے آپ کہتے تھے بات صرف سیاسی جماعت سے ہو سکتی ہے اور پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں۔۔ آج کیسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ وہیں کھڑے ہیں؟۔

آپ کی شکایت ہے کہ خیبر پختونخوا میں آپ کا مینڈیٹ چھینا گیا، چھین کر جس جماعت کو دیا گیاآپ اسی کے ساتھ مل کرتحریک چلانا چاہتے ہیں؟۔۔

اب یہ بھی ہونا چاہیئے کہ قیدی نمبر 420 کے دل میں جو مولانا فضل الرحمن کے لیے جذبات ہیں وہ تبدیل ہو جائیں۔۔ یہ بھی ہونا چاہیئے کہ کپتان یہ کہے کہ وہ فوج کے بجائے نواز شریف کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ وہ زرداری کو بھی سیاسی لیڈر سمجھے اور بات چیت کا آغاز کرے۔مسئلہ تو حل تب ہی ہو گا جب سب مل کر بیٹھیں گے ورنہ پھر اپنی اپنی دکان چلاتے رہیں ایسے ہی۔

مزید خبریں