جمعه,  17 مئی 2024ء
ابو بچاؤ مہم جاری ہے۔
الیکٹرک بائیکس سے فحاشی کا خاتمہ

شہریاریاں۔۔۔تحریر:  شہریار خان

کہتے ہیں انسان کو بہت سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے۔ چاہے پرچی سے پڑھ کر ہی کیوں نہ بولے، ورنہ پھر یہی ہوتا ہے کہ آپ ایک بات کریں۔۔ کسی کا تمسخر اڑائیں، کل کو آپ خود اس پوزیشن میں آئیں تو پھر آپ کی باتیں آپ کے اپنے منہ پر ماری جاتی ہیں۔۔۔ آپ کسی کی بیماری کا مذاق اڑائیں اور کہیں کہ وہ جعلی مریض ہے پھر اس کا انتقال ہو جائے تو آپ اس کا بھی مذاق بنائیں۔
خود آپ کی ٹانگ پر گولی لگ جائے اور آپ وہیل چیئر پر آ جائیں۔۔ اس کا کوئی مذاق اڑائے تو پھر دکھ تو ہوتا ہی ہے؟۔۔ ایسے ہی آپ کہتے رہے کہ کسی سزا یافتہ کا ٹی وی سکرین پر کیا کام؟۔ اس کا نام بھی لینے پر پابندی لگا دی۔۔ اس کی تقریر نہیں چل سکتی تھی، اس کی بیٹی کی پریس کانفرنس پر بھی بین تھا۔۔ مگر اس کے جواب میں آپ کی جماعت کے چھتیس لوگ پریس کانفرنس کرتے اور اس پریس کانفرنس کا ذکر کرتے جو چینلز پر دکھائی بھی نہیں گئی۔

آپ جب اپوزیشن میں تھے تو آپ کہتے تھے کہ پی ٹی وی پر اپوزیشن کا بھی حق ہوتا ہے کیونکہ ہم بلوں میں پی ٹی وی فیس ادا کرتے ہیں۔ پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس کرنے کے لیے صرف حکومتی ارکان کیوں جائیں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ پر اپوزیشن کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا حق حکومت کا ہے۔

خود حکومت میں آئے تو پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس کی اجازت دینا تو درکنار۔۔ اپوزیشن کو پی ٹی وی پر غائب کر دیا گیا۔۔ ایک نعیم بخاری نامی وکیل کو پی ٹی وی کا چیئرمین بنانے کا فیصلہ ہوا اور ان سے ایک صحافی نے پوچھ لیا کہ اپوزیشن کو پی ٹی وی پر کتنا وقت دیا جائے گا تو وہ بولے کہ پی ٹی وی پر اپوزیشن کا کیا کام؟۔

اپوزیشن ارکان پر مقدمات بنائے جاتے اور نیب میں بننے والے ان مقدمات سے ایک دو روز پہلے ہی آپ کے تمام وزرا بتاتے کہ کل ایک اور وکٹ گرنے والی ہے۔۔ وہ گرفتار ہو جاتے تو کہا جاتا کہ ان گرفتاریوں سے حکومت کا کیا تعلق ہے؟۔ یہ نیب نے کی ہیں۔

جب اپوزیشن والے نیب کے خلاف آواز اٹھاتے تو چار پانچ وزرا نیب کے دفاع کے لیے پریس کانفرنس کرتے۔۔ جبکہ مقدمہ نیب کا، گرفتاری نیب کی تو پھر کسی تنقید کا جواب بھی نیب کا میڈیا ونگ دے سکتا تھا لیکن حکومتی ترجمان یہ کام بھی کیا کرتے۔

عام انتخابات 2018میں اپوزیشن دھاندلی کا الزام لگاتی تو وہ جھوٹ ہوتا۔۔ اپوزیشن کہتی کہ آر ٹی ایس بیٹھ گیا تو اس کا دفاع کیا جاتا۔۔ آج کہتے ہیں ای ایم ایس بیٹھ گیا تو اسے بھی جھوٹ ہی مانا جائے یا پھر آپ کی بات سچی مانیں تو کیوں مانیں؟۔ڈسکہ میں ہونے والے الیکشن میں اس بے موسمی دھند پڑی اور اندھا دھند پڑی جس کے نتیجے میں بیس پریذائیڈنگ افسران غائب ہو گئے اور صبح برآمد ہوئے اور نتائج بھی مطلوبہ لے کر آئے۔اس وقت آپ وفاق اور پنجاب میں حکومت چلا رہے تھے۔

آپ کہتے تھے کہ نریندر مودی۔۔ نواز شریف کا یار ہے کیونکہ وہ پاکستان میں نواز شریف کے گھر ہونے والی شادی کی تقریب میں خصوصی طور پر شامل ہوا۔۔ خود آپ نریندر مودی کی فتح کی دعائیں مانگتے رہے اور کہا کہ مودی جیتا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا۔ نریندر مودی نے کچھ ایسے کشمیر کا مسئلہ حل کیا کہ تمام قوانین کو روند دیا مگر آپ نے ہر جمعہ پندرہ منٹ کے احتجاج کی کال دی۔ آپ کی پارٹی کے کارکنوں نے تمام شہروں میں سڑکیں بند کر کے مودی کے خلاف احتجاج کیا۔

ہو سکتا ہے کہ اس خاموش احتجاج کے بعد آپ مودی کو بد دعائیں دینے کا بھی اعلان کرتے لیکن لوگ ہی اس مسئلہ کو بھول گئے تو آپ نے بھی مزید احتجاج پر وقت ضائع نہیں کیا۔ہاں آپ کو یہ افسوس ضرور رہا کہ مودی آپ کا فون بھی نہیں سنتا۔

خیر فون کا کیا ہے۔۔ آپ کو یہ شکایت بھی رہی کہ جو بائیڈن نے آپ کو فون نہیں کیا۔۔ یہ کہتے تھے نواز شریف بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کا نام بھی نہیں لیتا۔۔ ہم ہوتے تو اس کو سخت سزا دیتے۔۔ پھر جب اقتدار میں آئے تو کلبھوشن کو رعایت دینے کے لیے پارلیمنٹ سے قانون بھی منظور کروا لیا۔
حکومت ختم ہونے لگی تو کہا گیا کہ امریکا نے ہماری حکومت گرائی ہے۔۔ آج جب الیکشن ہارے ہیں تو کہتے ہیں کہ امریکا ہماری مدد کرے۔۔ یہاں دھاندلی ہوئی ہے، امریکا اس کے خلاف آواز اٹھائے۔ کل جب آپ کہتے تھے امریکا ہمیں ڈکٹیٹ کیسے کر سکتا ہے؟۔۔ کیا ہم کوئی غلام ہیں؟۔۔ آج کیوں امریکا کی ڈکٹیشن پر ان انتخابات کو دھاندلی زدہ کہا جائے؟۔

مزید پڑھیں: کل جو درست تھا آج غلط کیسے؟

کل جب سیاسی جماعتیں احتجاج کیا کرتیں تو اس کا بھی مذاق اڑایا جاتا۔۔ کہتے مریم اور بلاول ابو بچاؤ مہم پہ نکلے ہوئے ہیں۔۔ آج جب پارلیمنٹ میں ان کی جماعت کے ارکان کو نعرے لگاتے سنتے ہیں کہ جب تک قیدی نمبر 420 رہا نہیں ہو جاتا ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔۔ ہم پارلیمنٹ کو نہیں مانیں گے۔۔ اگر کل وہ ابو بچاؤ مہم تھی تو پھر یہ مہم آج بہت زور شور سے جاری ہے۔۔۔ آج کوئی مطالبہ نہیں بس مطالبہ یہ ہے کہ ہمارا قیدی رہا کرو۔

مجھے عمر ایوب، اسد قیصر جیسے سیاسی لیڈرز پر ترس آیا کہ انہیں یہ اجازت بھی نہیں کہ وہ ایوان میں بیس منٹ سے زیادہ کرسی پر بیٹھے رہیں۔۔ بیس منٹ ہوتے ہی یہ لوگ اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔۔ جو ووٹ ڈالنے جائے وہ اس قیدی کے نام کے نعرے لگائے۔۔ بس مجھے تو یہ سب مناظر دیکھ کر یوں ہی محسوس ہوا کہ ابو بچاؤ مہم جاری ہے۔۔ اور بھرپور انداز میں جاری ہے۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News