شہریاریاں۔۔۔ شہریار خان
پاکستانیوں کو اگر معصوم کہا جائے تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔۔یہ وہ معصوم قوم ہے جسے آسانی کے ساتھ بار بار دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ یہ مومنین کی اس نسل سے ہیں جسے ایک سوراخ سے دو نہیں کئی مرتبہ بھی ڈسا جا سکتا ہے بلکہ انہیں اگر ڈس نہ بھی سکیں تو وہ خود اپنے آپ کو اس کے لیے پیش کرتے ہیں۔
یہاں اس ملک میں لوگ ڈاکٹر شاہد مسعود کی باتوں پر ایمان لا کر یہ سمجھ رہے تھے کہ 2012 میں دنیا ختم ہو رہی ہے اور قیامت بہت قریب ہے۔ وہ سال بھی گزرا اور اس کے بعد مزید کئی سال گزر گئے، ڈاکٹر قیامت دھبڑ دھوس کے نام سے مشہور شاہد مسعود ہر روز نئی پیش گوئی کر تے رہے اور ہر پیش گوئی غلط بھی ثابت ہوتے رہے لیکن اس پر وہ شرمندہ ہوئے نہ ہی ان کے ماننے والے متنفر ہوئے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب بہت معصوم ہیں۔۔ روز ارادہ کرتے ہیں کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دیں گے مگر روز بھول جاتے ہیں۔ ان کے چاہنے والے بھی بہت معصوم ہیں جو ہر روز اس امید کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا پروگرام دیکھتے ہیں کہ شاید کسی روز ان کی کوئی بات سچ بھی ہو جائے۔
یہ ڈاکٹر صاحب اپنے ایک پروگرام میں ایک خبر دے بیٹھے اور اس خبر پر سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا، یہ اپنی خبر پر ڈٹ گئے کہنے لگے صحافی ہوں خبر دی ہے اس پر ڈٹ کے کھڑا ہوں۔۔ اس کے بعد جب ثابت ہو گیا کہ وہ بالکل بے بنیاد بات تھی جسے ڈاکٹر ڈھبڑ دھوس نے پروگرام میں چلایا تو ڈاکٹر صاحب مکر گئے اور کہا کہ میں نے خبر تو نہیں دی خبر تو وہ ہوتی ہے جو سکرین کے نیچے ٹک ٹک چلتی ہے۔ میں نے صرف معلومات دی تھیں جسے چیک کرنا رپورٹر کا کام تھا۔
خیر ہمارے ناظرین تو آج بھی ڈاکٹر قیامت جیسے دھبڑ دھوسوں کی باتوں سے متاثر ہو کر انہیں ولی اللہ کے درجے پر فائز کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اللہ کی جانب سے ہماری طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ہمیں ہدایت ملے، ان کی بات اس حد تک تو درست ہوتی ہے کہ یہ اللہ کی جانب سے بھیجے گئے ہیں مگر ہدایت نہیں بلکہ عذاب کے طور پر۔
ایسے ہی ایک اور نیک اور پارسا شخص ہیں خلیل الرحمن قمر۔۔ ان کے فرمودات سن سن کر بھی لوگ انہیں پارسائی کے اعلی درجے پر فائز سمجھتے رہے اور شاید کچھ لوگ آج بھی سمجھتے ہیں مگر اکثریت کے سروں سے یہ بھوت ہنی ٹریپ کی وجہ سے اتر گیا۔
لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ شخص بھی انتہائی معصوم ہے جو اس کیمرے بلکہ جا بجا کیمرے کے دور میں دنیا کی ہر برائی کرنے کے باوجود خود کو پارسا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اب بھلا غور کیجئے، یہ پارسا شخص ایک انجان عورت کا فون سن کر اس کے گھر رات کی تاریکی میں پہنچ جاتا ہے۔ وہاں جو بھی ہوا، اس کے بعد انہوں نے باہر نکل کر ہائے لٹ گیا، ہائے برباد ہو گیاکے نعرے لگائے۔
ایف آئی آر بھی کٹوا دی۔۔ یہ غالباً ڈکیتی کی ایسی واردات تھی جس میں لٹنے والا ازخود لٹنے کے لیے ڈکیتوں کی طرف پہنچا،وہاں انہوں نے ایسے ایسے گل کھلائے کہ شیطان بھی کانوں کو ہاتھ لگائے۔۔ مگر کئی گھنٹے وہاں گزارنے کے بعد وہاں سے نکلے اور پھر “لوٹنے والوں ” کے خلاف کیس درج کروایا۔
یہ بھی انتہائی معصوم ثابت ہوئے، ایک تو انجان نمبر سے انجان لڑکی کی کال پر رات گئے کسی کے گھر پہنچے، اپنی نیت کے مطابق وہاں واردات ڈالی اور کچھ واردات میزبانوں نے ڈالی پھر جب معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے تو وڈیو بھی بنا لی ہے تو کیس درج کروا دیا اور بولے کہ مجھے گن پوائنٹ پر یہ سب کچھ کرنے پر مجبور کیا گیا حالانکہ وڈیو یہ سب کچھ ظاہر کر رہی ہے کہ گن پوائنٹ پر غالباً ان کے نفس نے انہیں لے رکھا تھا۔
کیس بھی بہت معصوم بنایا کہ مجھے ڈاکٹر نے دن کی روشنی میں باہر نکلنے سے منع کر رکھا ہے اس لیے خاتون سے ملنے کے لیے رات گئے گیا اور نماز پڑھنے کے بعد وہاں گیا۔ یعنی اس حد تک معصوم ہیں کہ یہاں بھی مذہبی ٹچ دے دیا۔
خیر مذہبی ٹچ اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب ہر کوئی اپنے غلط کاموں میں بھی مذہبی ٹچ دے دیتا ہے۔ جیسے کوئی بلڈر یتیم، بیوہ کی اراضی پر قبضہ کر کے وہاں پلاٹ بنا دیتا ہے اور غریبوں کو کیسوں میں الجھا دیتا ہے مگر معصوم اتنا ہے کہ دسترخوان پہ غریبوں کو مفت کھانا بھی کھلاتا ہے اور رمضان کا آخری عشرہ بھی حجاز مقدس میں گزارتے ہیں تاکہ گناہ معاف ہو جائیں۔
اب خلیل الرحمان قمر کا نیا بیان سامنے آیا ہے۔۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ ملک چھوڑنا نہیں چاہتے مگر اب وہ اس پر سوچ رہے ہیں اور پھر انہوں نے اس معصوم قوم کو دھمکی بھی دی ہے کہ اس قوم کو ان جیسا کوئی بھی نہیں ملے گا۔۔ اب معصوم وہ خود ہیں یا انہیں ماننے والے یہ وقت ثابت کرے گا لیکن انہیں خود بھی سوچنا ہو گا کہ دنیا کے قبرستان ان افراد سے بھرے ہوئے ہیں جنہیں شاید یہ غلط فہمی تھی کہ وہ اس دنیا کے لیے ناگزیر ہیں اور اس پوری دنیا کا بوجھ ان کے معصوم کندھوں پر ہے۔
مزید پڑھیں: ابو بچاؤ مہم جاری ہے۔
خلیل الرحمان قمر کے بعد آج کل ایک اور معصوم شخص سامنے آیا ہے جس نے اس خاتون سے شادی کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے جس نے ایک منجھے ہوئے اینکر کے ساتھ شادی کی اور پھر اپنے تنہائی کے لمحات کی وڈیوز بنا کر لیک کر دیں جس کے بعد وہ شخص پہلے گوشہ تنہائی میں گیا اور پھر یہ دنیا چھوڑ گیا۔
ڈاکٹر عامر لیاقت کی سوچ اور خیالات سے اختلاف ہو سکتا تھا لیکن ماننے والی بات ہے کہ وہ انتہائی ذہین انسان تھا۔۔ بس غلطی کر بیٹھا اور دوسری شادی کی خاطر اپنی وفا شعار بیوی کو طلاق دی، دوسری بیوی انہیں چھوڑ گئی۔۔ اس کے بعد تیسری بیوی بن کر دانیہ ان کی زندگی میں آئی اور زندگی کا خاتمہ کر کے چلی گئی۔
لیکن کیا کیا جائے کہ یہاں معصوموں کی کمی نہیں۔ دانیہ شاہ سے شادی کرنے والا حکیم شہزاد کہتا ہے کہ مسلسل 38 روز تک راتوں کو جاگ کر تہجد کی نماز پڑھی تو دانیہ شاہ جیسی معصوم اور شریف بیوی ملی۔۔ اس پر ہمارے ایک انتہائی معصوم دوست کا کہنا ہے کہ اگر 38 کے بجائے حکیم صاحب 50 روز جاگ کر عبادت کرتے تو میا خلیفہ جیسی معصوم بچی بھی مل سکتی تھی۔
افسوس کہ زیادہ معصوم ہونے کی وجہ سے حکیم شہزاد نے صرف 38 روز تک ہی عبادت کی ورنہ وہ انٹرنیشنل معصوم لڑکی بھی پا سکتے تھے، اسی لیے تو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم دنیا کی سب سے زیادہ معصوم قوم بلکہ انتہائی معصوم ہے اور وہ اس پر فخر بھی نہیں کرتی۔