اتوار,  01 دسمبر 2024ء
وہ مسافر تھا /کہاں کھو گیا؟

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
میں مرد ہوں اور میں نے بچپن سے سن رکھا ہے کہ مرد رویا نہیں کرتے
آج عمر کے اس حصے میں گزرا وقت ،ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے کسی اسکرین پر چل رہا ہے۔ یہ ماہ و سال، چشم زدن میں کیسے گزر گئے؟
اللہ قرآن میں فرماتے ہیں کہ تمہیں زندگی میں گزارا ہوا وقت، ایک دن یا دن کا کوئی پہر محسوس ہوگا
اور آج میں اس فلم کو چشم تصور سے دیکھتا ہوں۔
پرانے زمانے کی بات ہے مگر کل کی بات معلوم ہوتی ہے۔

میں دیکھتا ہوں کہ ایک بچہ، اپنے سفر پر روانہ ہوتا ہے
یہ سفر عجیب و غریب سفر ہے/ دلچسپیوں سے بھرا ہوا سفر ہے
کہیں اونچ، کہیں نیچ
کبھی کامیابی !کبھی ناکامی کبھی ہار، کبھی جیت
کبھی خوشی، کبھی غم

ایک بچہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو اسے اپنا سفر بہت لمبا معلوم ہوتا ہے
لیکن چند قدم چلنے کے بعد اسے ایک اور بچہ دکھائی دیتا ہے
وہ بچے سے پوچھتا ہے
ننھے تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ وہ بچہ کہتا ہے میں ہمیشہ کھیلا کرتا ہوں
آؤ تم بھی میرے ساتھ کھیلو۔
ہم دونوں کھیلیں گے
اور وہ اس بچے کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتا ہے
وہ کھیلتے رہتے ہیں /کھیلتے رہتے ہیں /کھیلتے کھیلتے بہت وقت گزر جاتا ہے
دونوں بہت خوش ہیں۔
ایک سہانی صبح وہ دیکھتا ہے کہ دن ،بہت خوبصورت ہے۔
ہوائیں گا رہی ہیں
سورج کی روشنی چار سو پھیلی ہوئی ہے
پرندے چہچہا رہے ہیں لیکن وہ بچہ غائب ہو چکا ہے
وہ کہیں کھو گیا ہے

یہ بچہ ایک مسافر کی طرح پھر اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔
اسے یاد آیا کہ ان کے ساتھ اور بھی بچے شریک ہو جایا کرتے تھے
جب بارشیں ہوتی تو وہ خوشی مناتے /جب زور کی ہوا چلتی ہے تو وہ پھر خوش ہوتے اور سائیں سائیں کرتی ہوئی ہوا بھاگتی
تو یہ کہتے کہ
یہ ہوا تو گھر سے بھاگ نکلی ہے اور پھر سوچتے کہ اس کا گھر کہاں ہے؟
یہ دیکھتے کہ ہوائیں شور مچاتی ہیں/ بادلوں کو ہانکے لیے جاتی ہیں/ درختوں کو جھکاتی ہیں۔/ سمندر کو تنگ کرتی ہیں۔
سمندر شور مچاتا ہے /غصے میں بھر جاتا ہے/ اٹھ اٹھ کر لپکتا ہے لیکن اب اسے سب کچھ نظر نہیں آرہا تھا
وہ بچے کے کھو جانے سے اور کھیلوں کی دلچسپی سے محروم ہو گیا تھا
یہ بچہ مسافر ۔پھر آگے بڑھتا ہے
اب یہ بچہ آگے بڑھا تو اسے ایک لڑکا نظر آیا
اس نے لڑکے سے پوچھا
بھائی تم کیا کرتے ہو؟
لڑکے نے جواب دیا میں تو ہر وقت پڑھتا ہوں
آؤ تم بھی میرے ساتھ پڑھو اور پھر وہ دونوں پڑھنے لگے۔
لڑکا پڑھتا گیا /پڑھتا گیا/
بہت عرصہ بیت گیا
اس نے عمروعیار /علی بابا 40 چور / طلسم ہوشربا
بہت کچھ پڑھ ڈالا
اتنا پڑھ ڈالا کہ میں نہیں بتا سکتا اور شاید وہ بھی نہیں بتا سکتا
کیونکہ جب وہ سبق ختم کر چکا تو وہ سب کچھ بھول چکا تھا
اور وہ لڑکا جس نے اسے پڑھائی کی طرح راغب کیا تھا وہ بھی کہیں کھو گیا تھا۔
لڑکے نے اسے پکارا ۔لیکن وہ نہ مل سکا
اب یہ پھر اپنے سفر پر اکیلے ہی روانہ ہو گیا
کہیں سنسان راستے میں اس مسافر لڑکے کو ایک نوجوان دکھائی دیا
اس نے پھر نوجوان سے وہی سوال کیا۔ کیوں یار تم کیا کرتے ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو ؟
اس نوجان نے جواب دیا میں عاشق ہوں
میرا کام عشق کرنا ہے اور تم بھی میرے ساتھ کسی پر عاشق ہو جاؤ
وہ نوجوان کے ساتھ چل پڑا۔ انہیں خوبصورت لڑکی دکھائی دی
بہت ہی خوبصورت/ شہزادی/راج کماری/کوہ کاف سے آئی ہوئی ایک پری۔
نوجوان اس پر فریفتہ ہو گیا۔ اس پر جان لٹانے لگا
ان میں کبھی کبھی جفائیں بھی ہوتیں
وہ ایک دوسرے سے لڑتے/ ناراض ہوتے/ روتے/ پھر ایک دوسرے کو منا لیتے ہیں_ پھر گلے ملتے/ پھر ہنستے/ آخر کار پھر روتے جدائی کے سبب
اس طرح ایک دوسرے کے انتظار میں وقت گزارتے۔
آخر ایک دن وہ آگ تاب رہے تھے۔ باتیں کرنے لگے ۔باتوں باتوں میں شادی کا اقرار ہو گیا اور شادی کا قرار
انہی لمحات میں ہوا کرتا ہے۔
اب اس نوجوان کی قسمت دیکھیے کہ ایک دن یہ عاشق اور محبوب کا جوڑا بھی کہیں گم ہو گیا
یہ نوجوان چلتا رہا/ چلتا رہا/ وقت گزرتا گیا_ آخر کار اسے ایک ادھیڑ عمر کا آدمی ملا
اس نوجوان نے سے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں جناب؟
اس نے جواب دیا ۔کام دھندے میں لگا رہتا ہوں
آؤ تم بھی میرے ساتھ کام کرو
وہ دونوں جنگلوں کی طرف چل پڑے/ پھر میدانوں میں/ پھر پہاڑوں میں/ پھر بستیوں میں/ جوں جوں آگے بڑھتے رہے، اندھیرا اور گہرا ہوتا رہا اور کام کا بوجھ بھی بڑھتا رہا
وہ ادھیڑ عمر شخص اکیلا نہ تھا۔ اس کے ساتھ تقریبا اسی کی عمر کی ایک عورت بھی تھی جو کہ اس کی بیوی تھی
اور ساتھ بچے بھی تھے جو پیچھے پیچھے آ رہے تھے ۔
یہ لوگ زندگی بتانے کے لیے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کر رہے تھے/ راستہ بناتے تھے/ پتھروں کو ہٹاتے تھے/ بوجھ اٹھاتے تھے اور آگے بڑھتے چلے جاتے تھے۔

کبھی انہیں پیچھے سے آواز اتی تھی ابا ابا ٹھہر جانا ۔
میں بھی تمہارا بچہ ہوں
میں بھی تمہارے پیچھے ہوں۔
ٹھہرنا ابا، اور وہ ٹھہر جاتے۔ اسے پیار کرتے، ساتھ ملا لیتے اور آگے بڑھتے/ آگے بڑھتے رہے/ بڑھتے رہے۔ پھر ایک مقام ایسا آیا جہاں راستے مختلف اطراف کو نکلتے تھے۔
یہاں پہنچ کر ایک بچے نے کہا ،میں سمندر کو جا رہا ہوں
دوسرے بچے نے اپنے ماں باپ سے کہا
میں ولایت جاتا ہوں پڑھنے کے لیے
تیسرے کو مزدوری کی فکر لاحق تھی کہ وہ اپنے والدین کا سہارا بنے
زندگی سنوارنے کے لیے کہیں مزدوری کرنے جانا چاہتا تھا
اور چوتھے بیٹے نے کہا

میں تو اللہ میاں کے پاس جاتا ہوں
اور وہ اللہ میاں کے پاس چلا گیا
سب رونے لگے
جدائی تو بہت بری چیز ہوتی ہے نا
سب جدا ہو گئے
ہر ایک نے اپنا اپنا راستہ اختیار کیا اور چلے گئے
ہر ایک بچے کی رخصت پر وہ ادھیڑ عمر آدمی آسمان کی طرف دیکھتا تھا گویا کسی سے شکایت کرتا ہو
اس کے بال سفید ہو رہے تھے۔ مگر انہیں کام کرنا تھا۔ ٹھیر سارا کام
چل پڑے اور چلتے رہے۔ یہ نوجوان/ وہ شخص/ اس کی بیوی اکیلے رہ گئے
چلتے چلتے اس جگہ پہنچے جہاں بہت تاریکی تھی
اتنے میں اس کی بیوی دفتنآ ٹھہر گئی
اور اس نے کہا مجھے کوئی بلاتا ہے میرے مجازی خدا۔

سب سننے لگے۔ بہت دور سے آواز آئی ۔امی امی
ماں اپنے اس بچے کی آواز پر تڑپ اٹھی
ماں نے کہا میں اپنے اللہ میاں کے پاس جاتی ہوں میرا بچہ مجھے بلا رہا ہے
بچے کے باپ نے کہا بچے ذرا ٹھہرو
سورج غروب ہونے کو ہے۔ وہ رو رہا تھا
مگر بچے نے کچھ کروا نہ کی پھر پکارا
امی/ امی/ امی آجاؤ میرے پاس
بیوی نے میاں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور پیچھے کو چلنے لگی
چلتی جاتی اور کہتی جاتی میرے پیارے مجھے بلایا گیا ہے
میں جاتی ہوں ۔اپنا خیال رکھنا
اور وہ چلی گئی
اب یہ دونوں اکیلے رہ گئے پھر وہ شخص بھی کہیں غائب ہو گیا۔ یہ نوجوان اسے پکارتا رہا

اب میں چشم تصور سے دیکھتا ہوں کہ وہی بوڑھا شخص پرسکون وادی میں ایک درخت کے پاس بیٹھا ہے اور دنیا کی تمام آسائشیں اسے میسر ہیں
اور وہ سنجیدہ مسکراہٹ سے کہتا ہے
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
اؤ تم بھی میری ہمنوائی کرو۔

اس کے سب دوست چپکے چپکے اس کے ارد گرد آ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ /اس کے بچے/ ہونہار لڑکا/ امی /ابا/ سبھی وہاں موجود تھے
اور معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہمیشہ وہیں تھے
کبھی نظر سے اوجھل نہیں ہوئے تھے
ایک دن مجھے بھی سب چھوڑ جائیں گے اور ایک دن، میں بھی وہیں ،واپس اپنے خالق حقیقی کے پاس ،سب کو روتا چھوڑ کر چلا جاؤں گا جس نے مجھے اس جہان فانی میں بھیجا تھا
میرا رونے کو جی کرتا ہے میں نے اپنے آنسو ،اپنی پلکوں پہ تھام رکھے ہیں
کیونکہ میں نے بچپن سے سن رکھا ہے
کہ مرد رویا نہیں کرتے

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
دیکھ زمانہ چال قیامت کی چل گیا

مزید پڑھیں: پاکستان اسلامی دنیا کے ممتاز ترین ممالک میں سے ایک ہے،ترک صحافی

مزید خبریں