وزیر اعظم شہباز شریف کی میثاق معیشت کیلئےمزاکرات کی دعوت پراپوزیشن قیادت کا غیرسنجیدہ طرزعمل جمہوری اقدار کے منافی ہے۔.پی ٹی آئی نے اب تک حکومت کی پیشکش کو رد کرتے ہوئے صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنے پر اصرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’جو حقیقی فیصلہ ساز ہیں مذاکرات بھی ان سے ہی ہوں گے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر حزب اختلاف کی بڑی جماعت تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آج اگر ان کے بانی کو جیل میں کچھ مشکلات ہیں، مصائب ہیں، آئیں بیٹھ کر بات کریں، بیٹھ کر معاملات کو طے کریں۔‘ جبکہ اس کے جواب میں تحریک انصاف نے حکومت کو مذاکرات کے لیے شرائط کی ایک فہرست تھما دی ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ ہمیشہ کی طرح اپنی مذاکرات کی پیشکش کو ایک بار پھر دہراتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میں ان (تحریک انصاف اور عمران خان) کی خدمت میں یہ عرض کروں گا، آئیں بیٹھیں، ملک کی خوشحالی کے لیے، پاکستان کی بہتری کے لیے، ملک کو آگے لے جانے کے لیے، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘ شہباز شریف نے کہا کہ ’آج اگر ان کے بانی (عمران خان) کو جیل میں کچھ مشکلات ہیں، مصائب ہیں، آئیں بیٹھ کر بات کریں، بیٹھ کر معاملات کو طے کریں۔‘ ’میں نے اپنی پہلی تقریر میں یہ درخواست کی کہ آئیں میثاق معیشت پر اتفاق کرتے ہیں۔ جناب سپیکر حقارت سے میری اس پیشکش کو ٹھکرایا گیا بلکہ جو اس ایوان میں نعرے بلند ہوئے وہ تاریخ میں ہمیشہ سیاہ باب میں یاد رکھے جائیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو یقیناً انصاف کا پلڑا ہر وقت بھاری رہنا چاہیے، چاہے کوئی سیاسی رہنما ہے یا زندگی کے کسی بھی شعبے سے اس کا تعلق ہے۔ ’میں نے دوبارہ اپنی پیشکش دہرائی کہ آئیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ پھر ایسے نعرے بلند ہوئے، جن کا ذکر کرنا اس ایوان کی توہین ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’آج تلخیاں جس حد تک پہنچ گئی ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ آج 76 سال بعد ہم ایسی جگہ پر پہنچے ہیں کہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی ہم جھجھکتے ہیں۔اس اسمبلی میں ماضی میں بھی بہت تنقید ہوتی تھی، مخالفت میں باتیں ہوتی تھیں مگر سیاست دان ایک دوسرے کے دکھ اور تکلیف میں شریک ہوتے تھے۔اس موقع پر قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے وزیر اعظم کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر فوری ردعمل دیا اور مذاکرات کے لیے پی ٹی آئی کی شرائط حکومت کے سامنے رکھ دیں۔قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے وزیراعظم کی پیشکش پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو پہلے کوئی ’عملی اقدام’ اٹھائے۔
مذاکرات کے لیے اپنی شرائط سامنے رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے عمران خان سمیت تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے۔عمر ایوب کا کہنا تھا ’میں فارم 47 کے وزیراعظم کو کہنا چاہتا ہوں کہ بات تب ہو گی جب میرا وزیراعظم عمران خان صاحب باہر آئیں گے، بات تب ہو گی جب میرے 180 نشستوں پر میرے لوگ واپس آئیں گے۔‘ یوں عمر ایوب نے تحریک انصاف کو مینڈیٹ کی واپسی کا بھی مطالبہ دہرایا دیا۔ سیاسی پیشرفت سے قبل اگر وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور کے بیان پر نظر دوڑائیں تو حکومت مذاکرات کے معاملے پر کچھ تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہے۔پی ٹی آئی کا پہلا مطالبہ عمران خان کی رہائی اور ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جانا ہے۔ اس تمام صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے درمیان بات چیت کی راہ نکل بھی سکتی ہے؟پی ٹی آئی سے زیادہ حکومت کے لیے اس وقت مذاکرات کی طرف جانا اہم ہے ورنہ ان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب ملک سیاسی، عدالتی اور معاشی بحران کا شکار ہے مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، اگر فریقین کے درمیان تلخی ہے تو کوئی تیسرا فریق یا جماعت ان کے معاملات کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرے۔حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بھی چاہتی ہے کہ امن ہو، سکون اور سیاسی استحکام کے ماحول میں باہر سے سرمایہ لے کر آئیں۔
ا یک اچھی حکومت تو یہ کوشش کرتی ہے کہ سیاسی درجہ حرارت زیادہ نہ بڑھے۔ یہ کام عمران خان اپنے دور حکومت میں نہیں کر سکے تھے جب 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی تب عمران خان نے کہا تھا کہ وہ ہاتھ ملانے کو تیار نہیں ہیں۔ جمہوریت میں ڈائیلاگ اور مکالمے سے چیزیں بہتر ہوتی ہیں اور اپنی غلطیوں سے سیکھا جاتا ہے اور ریاست کے لیے بہتر رستہ نکالا جاتا ہے۔ پاکستان کو معاشی، سیاسی اور فرقہ واریت جیسے چیلنجز درپیش ہیں۔دوسری طرف پاکستان میں عام انتخابات مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے حوالے سے امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد پر ردعمل دیتے ہوئے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے امریکی قرارداد کے مقابلے میں قرارداد لانے کا اعلان کیا۔ قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے کہا کہ امریکی قرارداد کا سخت نوٹس لیا ہے، اور اس حوالے سے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جائے گی، کچھ چیزیں بہت حساس ہیں جن میں تاخیر نہیں ہوسکتی۔ قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کیلئے مسودہ تیار کرلیا، قرارداد کا مسودہ اپوزیشن کے ساتھ بھی شیئرکریں گے، ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے، ہم بھی یہاں بیٹھ کر دوسرے ملکوں کے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے اپوزیشن رہنماؤں سمیت تمام جماعتوں سے امریکی قرارداد کے خلاف مشترکہ موقف اپنانے کی اپیل کی۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ میں اپنی حکومت کی پالیسی یہاں پیش کروں گا۔
یہاں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد پر حکومت نے کچھ نہیں کیا، جس پر میں کہنا چاہوں گا کہ امریکی قرارداد سے متعلق دفترخارجہ نے کل رد عمل دیا تھا جو میں ایوان کو بتانا چاہوں گا۔ اسحٰق ڈار نے ایوان کو بتایا کہ دفترخارجہ نے امریکی قرارداد کے رد عمل میں کہا ’پاکستان نے امریکی ایوان نمائندگان میں منظور قرارداد کو نوٹ کیا ہے لیکن قرارداد کی منظوری کا وقت اور سیاق و سباق پاکستان اور امریکا کے دوطرفہ تعلقات کے مثبت پہلوؤں سے مطابقت نہیں رکھتے‘۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ نے کہا ’ قرارداد پاکستان میں سیاسی صورتحال اور انتخابی عمل سے نامکمل واقفیت کا نتیجہ ہے، جب کہ پاکستان دنیا کی دوسری بڑی پارلیمانی جمہوریت اور پانچواں بڑا جمہوری ملک ہے، اور پاکستان اپنے قومی مفاد میں قانون کی حکمرانی پر عمل کرتا ہے۔’ انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ کے رد عمل میں مزید کہا گیا ’ ایسی قراردادیں نہ تعمیری ہیں اور نہ ہی بامقصد، پاکستان باہمی احترام اور مفاہمت کی بنیاد پر تعمیری مذاکرات اور رابطوں پر یقین رکھتا ہے، امید ہے امریکی کانگریس پاک امریکا تعلقات مضبوط بنانے میں معاون کردار ادا کرے گی’۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ یہاں فلسطین پر بات ہوئی کہ حکومت کچھ نہیں کررہے، یہ سن کر مجھے بہت افسوس ہوا، فلسطین کے معاملے پر مستعدی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ہم نے او آئی سی اجلاس، گیمبیا میں سمٹ کے موقع پر اور ترکی کانفرنس میں غزہ پر واضح موقف اپنایا کہ القدس شریف فلسطین کا دارلخلافہ ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان نے اسرائیل کا نام لیکر مذمت کی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ نائب وزیراعظم نے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے آئینی ترمیم کے لیے اپوزیشن کو پیشکش کی کہ آئیں ملکر بیٹھیں، میں خود 2003 سے مسلم لیگ (ن) اوورسیز کا صدر ہوں۔
مجھ سے زیادہ اس میں کون دلچسپی لے گا کہ انہیں حقوق ملیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ باہر بیٹھ کر پشاور، میانوالی یا دیگر شہروں میں اپنے ووٹ کاسٹ کریں، آئیں ملکر انہیں اس ایوان میں چند سیٹوں پر نمائندگی دیں، اور اوورسیز بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کو چند سیٹوں کی نمائندگی مل جائے، تاکہ وہ وہاں کے لوگوں کے مسائل حل کرسکیں۔ خیال رہے کہ دفتر خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب کہ امریکا کے ایوان نمائندگان نے 8 فروری 2024 کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹنگ کے بعد ہیر پھیر کے دعووں کی غیر جانبدار تحقیقات کے حق میں قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے ملک کے جمہوری عمل میں عوام کی شمولیت پر زور دیا تھا۔ امریکی ایوان میں 7 کے مقابلے میں 368 امیدواروں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں مداخلت اور بے ضابطگیوں کے دعووں کی مکمل اور آزادنہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ قرار داد میں پاکستان کے لوگوں کو ملک کے جمہوری عمل میں حصہ لینے کی کوشش کو دبانے کی کوششوں کی مذمت کی گئی، ان کوششوں میں ہراساں کرنا، دھمکانا، تشدد، بلا جواز حراست، انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع تک رسائی میں پابندیوں یا ان کے انسانی، شہری اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی شامل ہے۔ ہاؤس ریزولوشن 901 میں کہا گیا کہ یہ قرارداد جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے حمایت کے اظہار کے لیے ہے۔ واضح رہے کہ سعودی خبر رساں ادارے نے رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان کے گزشتہ عام انتخابات پولنگ کے دن ملک بھر میں موبائل انٹرنیٹ کی بندش، مہم کے دوران گرفتاریوں، تشدد اور نتائج سامنے آنے میں غیر معمولی تاخیر سے متاثر ہوئے۔
یہ عوامل ان الزامات کا باعث بنے کہ انتخابات غیر شفاف تھے۔ انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ سب سے زیادہ قوت کے ساتھ سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اٹھایا گیا جس کے رہنماؤں کو اپنا انتخابی نشان ’بلا‘ چھن جانے کے باعث عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے شرکت کرنی پڑی جبکہ قانونی جنگ کے بعد الیکشن اتھارٹی کی جانب سے پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غلط قرار دیا گیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوارزیادہ تعداد میں کامیاب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچے۔یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اپوزیشن کی 6 اپوزیشن جماعتوں نے آئین کی بالادستی کیلئے ‘ تحریک تحفظ آئین’ کے نام سے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔اس اپوزیشن اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، جماعت اسلامی ،بلوچستان نیشنل پارٹی ،سنی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین شامل ہے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی تحریک کے صدر نامزد کردیے گئے ، اتحاد میں شامل جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کوارڈینشن کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی۔کوئٹہ میں 6 جماعتی اپوزیشن اتحاد کے اجلا س کے بعد نیو ز کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری عمر ایوب خان کا کہنا تھا کہ 6 جماعتوں کی لیڈر شپ حکومت کو رد کرتے ہیں۔جہاں قانون کی پاسداری نہیں ہوتی وہاں خوشحالی نہیں ہوتی ہے اس لیے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کانام تحریک تحفظ آئین رکھا گیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 8 فروری کے الیکشن ایک سونامی سے کم نہیں تھے ۔
ہم نے آئین اور قانون کی پاسداری کیلئے قربانیاں دی ہیں ،یہاں بیٹھی تما م جماعتیں اپنی مرضی سے تحریک میں شامل ہیں، ہمارا ایک ایجنڈا آئین اور قانون کی بالادستی ہے۔پشتون خواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ہم میں سے کوئی فوج کے خلاف نہیں ہے ، ہمارا اختلاف ان کے سیاسی رول سے ہے، ہم میں سے کسی نے آئین کو نہیں توڑا ،ہم آئین کی حفاظت کرتےہیں ، آئین کے دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔اس کے علاوہ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ جس تحریک کا اعلان کیا گیا اس کا آغاز 20 سال پہلے ہو تا تو ہمیں آج کے دن نہیں دیکھنے پڑتے،جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ عوام کو دیوار سے لگادیا ہے ان کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے ، ہمیں اجلاس کے اعلامیہ سے اتفاق ہے،لیکن ہم اپنی شوریٰ کے اجلاس کے بعد اپنا حتمی مؤقف سامنے رکھیں گے۔سنی تحریک کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا اور مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کو اس کی روح کے مطابق بحال کرنے کی ضرورت ہے،یہ تحریک ملک کی بڑی تحریک کے طور پر سامنے آئے گی۔