اتوار,  06 اکتوبر 2024ء
بھونڈ اور بابا رحمتا

شہریاریاں۔۔۔تحریر: شہریار خان

کیا سنجیدہ ماحول ہوتا ہے عدالتوں کا اور باالخصوص عظمیٰ اور عالیہ کا۔۔ جج صاحبان اور خصوصاً چیف جسٹس صاحب کا کیا رعب ہوتا ہے۔۔ ایسے میں اچانک کوئی جج یا وکیل ماحول کو بدل دیتا ہے جیسے آج ہی جج صاحب نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم نے ہمیں کالی بھیڑیں کہا ہے؟۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے مسکراتے ہوئے کہا ہم کالی بھیڑیں نہیں ہیں ہم بھونڈ ہیں۔۔ اب بھونڈ کس کس معانی میں استعمال ہوتا ہے، یہ دیکھیں تو ہنسی زیادہ آتی ہے۔۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے سکول کالج کے گرد منڈلانے والوں کو بھونڈ کہا جاتا ہے، اب تصور میں لائیں کہ کوئی جج گاؤن پہن کر سکول کے باہر موٹر سائیکل یا گاڑی پر چکر لگاتا ہوا کیسا دکھائی دے گا؟

اب اگر اس کے معانی تلاش کرنے جائیں تو ریختہ کی ویب سائٹ پر بھونڈ کے معنی: گبریلا، گوبر کا سیاہ پردار کیڑا، فصلوں اور درختوں کو نقصان پہنچانے والا کیڑا اور بھونرا ہے۔۔ اب ان میں سے کوئی بھی معنی ایسا نہیں جو کسی معزز عدالت کے جج کے لیے مناسب ہو۔۔ میرے خیال میں تو عدالتی ریمارکس کے بعد اب ریختہ کی ڈکشنری تبدیل کروانا پڑے گی۔۔
اگر ریختہ کی اس گستاخی کو ختم کرتے ہوئے معنی تبدیل نہ کیے گئے تو پھر کہیں کوئی گستاخ کمرہ عدالت میں منصف کی نشست پر بیٹھنے والے معزز جج صاحب کو گوبر کا سیاہ پردار کیڑا، فصلوں کو نقصان پہنچانے والا کیڑا نہ کہہ بیٹھے، کوئی معزز بھونرا صاحب کہہ کر مخاطب نہ کر لے۔۔

میں بھونڈ کے لفظی معنی تلاش کر رہا تھا کہ فیس بک پر ایک پر مغز تحقیقاتی تحریر سامنے آئی۔۔ اس کے مطابق بھونڈ ایک ایسا اڑنے والا کیڑا ہے جو انسان کے اندر اپنا ڈنگ گھسیڑ دے تو چیخیں نکل جاتی ہیں۔۔ یہ بھی لکھا تھا کہ ویسے تو بھونڈ بہت اقسام کے ہوتے ہیں مگر تین قسم کے بھونڈ بہت زیادہ مشہور ہیں۔۔ پیلا، براؤن اور پیلا براؤن (دو رنگا)۔۔

تحقیقات کے مطابق کالا بھونڈ دیکھنے میں جتنا خطرناک ہوتا ہے اس کا ڈنگ اتنا خطرناک نہیں ہوتا۔ سب سے زیادہ خطرناک دو رنگا بھونڈ ہوتا ہے۔ اس تحقیقاتی مقالے میں بھی بھونڈ کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ پنجابی میں لڑکیوں کے گرد پھرنے والے لڑکوں کو پھونڈ (بھونڈ) کہا جاتا ہے اور جو وہ لڑکے کرتے ہیں اسے پھونڈی کہا جاتا ہے۔

ویسے ایک پنجابی کہانی کے مطابق ایک گاؤں میں صبح صبح ایک بیل گھاس کھا رہا تھا۔۔ ادھر ہی ایک بھونڈ بھی اڑتا پھر رہا تھا، جب وہ بھونڈ تھک گیا تو وہ آرام کی خاطر بیل کے سینگ پر بیٹھ گیا۔ بیل گھاس چرتا رہا، جب کافی دیر ہو گئی اور بھونڈ بیٹھے بیٹھے تھک گیا تو اس نے بیل سے کہا اچھا بھائی میں تمہارے سینگ پر بیٹھا تھا اب چلتا ہوں۔۔ بیل نے حیران ہو کر کہا مجھے کیا پتا، میں تو جانتا بھی نہیں کہ تم میرے سینگ کے اوپر بیٹھے ہوئے ہو۔

اب اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ بھونڈ اگر بیل کے سینگ پر بیٹھے تو اسے پتا بھی نہیں چلتا لیکن اگر وہ انسان کو ڈنگ مارے تو انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں اس لیے بھونڈ کو یہ دھیان رکھنا چاہیئے کہ وہ کسی بیل کے بجائے صرف اور صرف انسانوں کو ڈنگ مارا کرے ورنہ بیل کے سینگ پر بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔۔

آج عدالتی کارروائی کی خبرپڑھتے ہوئے ساری خبر ایک طرف رہ گئی اور بھونڈ کی بات سامنے آ گئی۔۔ شکر ہے کہ کالم نگاری کے لیے ضروری نہیں کہ پیمرا کے احکامات کی پیروی کرے ورنہ پیمرا نے عدالتی ریمارکس کے حوالہ سے بہت واضح ایڈوائس جاری کر رکھی ہے کہ کوئی بھی جج صاحبان کے ریمارکس نہ رپورٹ کیا کریں ورنہ اس سے غلط تاثر جاتا ہے۔

اب سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ ایسے ریمارکس دئیے ہی کیوں جائیں کہ جس سے غلط تاثر باہر جانے کا اندیشہ ہوتا ہو۔۔ ریمارکس ایسے ہونے چاہیئں جو کیس سے متعلقہ ہوں، جب کوئی بار بار یہ کہہ کہ میں وزیر اعظم کو بلا لوں گا میں کابینہ کو بلا لوں گا۔۔ یا پھر یہ کہ سیکٹر کمانڈر ہمارے ایس ایچ او کے برابر ہیں۔

اب بندہ پوچھے کہ جناب کیا کریں گے اگر ایس ایچ او کو طلب کیا جائے اور وہ نہ آئے؟۔ اس لیے ریمارکس سوچ سمجھ کر دینے چاہیئں۔۔ اور میرے خیال میں تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا غصے کی حالت میں تو فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

مزید پڑھیں: ابو بچاؤ مہم جاری ہے۔

ریمارکس میں اگر غصہ ہو گا تو اس سے آپ کے کیس کے آنے والے ممکنہ فیصلے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا۔ دیگر ممالک میں شاید رپورٹنگ پر اس طرح پابندی نہ ہو لیکن معزز جج صاحبان کیس کے حوالہ سے سوالات ضرور کرتے ہیں، ایسے ریمارکس نہیں دیتے کہ جنہیں خود ہیڈ لائنز بنا دیکھ کر شرماتے ہوں۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ یہاں اسی عدالت میں بیٹھے ہوئے منصف اعلیٰ نے ڈیم بنانے کا اعلان کر دیا۔ پھر انہوں نے لوگوں کو کیسوں میں سزا دینے کے بجائے انہیں بھاری جرمانہ ڈیم فنڈ میں جمع کر دیا کرتے۔ اس سے ڈیم فنڈ بہت پھل پھول گیا۔

انہوں نے بیرون ملک جا کر ڈیم کے لیے خوب فنڈ ریزنگ کی۔۔ پھر فنڈ بڑھنا شروع ہوئے تو انہوں نے کہا کہ وہ بابا رحمتا ہیں، اب وہ بابا رحمتا بن کر ڈیم کی چوکیداری کریں گے۔۔ ہائے ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ کینیڈا کی نیاگرا آبشار کو ڈیم سمجھ رہے ہیں۔۔

انہوں نے ڈیم فنڈ لیتے لیتے ملک ریاض سے بھی بھاری جرمانہ وصول کیا۔۔ اسی ڈیم فنڈ کے بہانے برطانیہ سے پچاس ارب روپے جو قومی خزانہ میں جانے چاہیئں تھے وہ جرمانے کے طور پر ڈیم فنڈ میں جمع ہو گئے جبکہ یہ کیس سندھ کی زمینوں کا تھا، اگر اس حوالہ سے کوئی ریکوری ہوتی ہے تو وہ سندھ کے خزانہ میں جمع ہونی چاہیئں۔۔
مسئلہ صرف انصاف کا ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ خود کو بابا رحمتا اور بھونڈ کہنے کے بجائے ایسے فیصلے کریں جس سے عوام کا بھلا ہو۔۔ یہاں لوگوں کی زمین جائیداد کے کیس کئی نسلوں تک چلتے ہیں مگر سیاسی کیسوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ آپ کو بھونڈ یا بابا رحمتا بننے کے بجائے ایسا جج بننا چاہیئے جو عرصہ دراز سے عدالتوں کے چکر لگاتے سائلین کوفوری انصاف فراہم کریں۔۔

مزید خبریں