تحریر:اصغر علی مبارک
غزہ کی کشیدہ صورتحال میں بنجول میں او آئی سی کا سربراہی اجلاس 4 سے 5 مئی 2024 تک گیمبیا کے شہر بنجول میں منعقد ہوگا۔گیمبیا, دی نیور اگین یادگار, بنجول `کے سائے میں اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت اور حکومتوں کے سربراہی اجلاس کا 15 واں ایڈیشن ہے۔ سربراہی اجلاس4 سے 5 مئی 2024 تک گیمبیا کے شہر بنجول میں منعقد ہوگا۔ او آئی سی کے ستاون (57) رکن ممالک کے صدور، بادشاہ، سلطان، وزرائے اعظم، حکمران اور دیگر عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔
ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار 2 اور3 مئی وزرائے خارجہ اجلاس اور 4 سے 5 مئی کو سربراہان مملکت اجلاس میں پاکستان کے وفد کی قیادت کریں گے ۔ ڈپٹی وزیراعظم غزہ کی صورتحال, کشمیر کے حوالے سے فورم کو آگاہ کرینگے ،گیمبیا او آئی سی کا سربراہی اجلاس جو کہ اصل میں 2020 میں شیڈول تھا لیکن تیاریوں کی کمی کی وجہ سے اسے تین بار ملتوی کر دیا گیا تھا اس سال 4 مئی سے 5 تاریخ تک بنجول میں منعقد ہوگا۔افریقہ کا سب سے سرزمین والا ملک نومبر 2023 کے سربراہی اجلاس کی تاریخ سے پہلے بنجول انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ڈوئل کیریج ویز، ایک سمٹ ہوٹل، ایک بین الاقوامی کانفرنس سینٹر، اور وی وی آئی پی لاؤنج جیسے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو مکمل کرنے میں ناکام رہا۔
گیمبیاجو او آئی سی سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے جو اس سے قبل گزشتہ سال 16 نومبر کو ہونا تھا کیونکہ حالات سے منسلک سیکورٹی اور دیگر چیلنجوں کی وجہ سے گیمبیا نے فیصلہ کیا تھا کہ اسے مزید آگے بڑھانا بہتر ہے۔اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) جو کہ اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی تنظیم ہے اپنے قیام سے غیر موثر ہے گزشتہ چھ ماہ سے دنیا کے مسلمان صرف تنقید کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر غزہ کے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔
او آئی سی دنیا بھر کے 1.2 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس تنظیم نے اپنے پلیٹ فارم سے اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور مسائل کے حل کے سلسلے میں سوائے اجلاسوں کے کچھ نہیں کیا 28 جون، 2011ء کو آستانہ، قازقستان میں اڑتیسویں وزرائے خارجہ اجلاس کے دوران میں تنظیم نے اپنا پرانا نام تنظیم موتمر اسلامی کو تبدیل کرکے نیا نام اسلامی تعاون تنظیم رکھا,اس وقت تنظیم نے اپنا لوگو بھی تبدیل کر لیا۔
تنظیم تعاون اسلامی ایک بینالاقوامی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطی، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی میں پالیسی ترتیب دینے میں سب سے اہم کام رکن ممالک کے سربراہان کا اجلاس ہے، جو ہر تین سال بعد منعقد ہوتا ہے
سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عملدرآمد کی صورت حال اور غور کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ طالبان کے افغانستان میں بر سر اقتدار آنے کے بعد ملک کی تشویشناک صورت حال اور سنگین انسانی بحران کے خدشے کے باعث پاکستان کی کوششوں سے سعودی عرب کی دعوت پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر 2021 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا۔ 21 اگست 1969ء کو مسجد اقصی پر یہودی حملے کے رد عمل کے طور پر 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا
او آئی سی کا مستقل دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم ہے۔ اس وقت او آئی سی کے سیکرٹری ایاد بن امین مدنی ہیں جن کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ وہ 31 جنوری 2014ء سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیےگیمبیا, بنجول سربراہی اجلاس کا لوگو سابقہ انتظامیہ کے تحت ملک کے مشکل ماضی اور ساتھ ہی نئے گیمبیا میں انصاف اور خوشحالی کے لیے نئی امید اور کوششوں کا اعتراف ہے۔ اس یادگار کو علامتی شکل دینے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور نمونہ نہیں ہو سکتا کہ بنجول میں دی نیور اگین یادگار۔ اگرچہ 1994 میں حکومت کی غیر آئینی تبدیلی کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا، صدر اڈاما بیرو نے برسوں کے جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کے اعزاز میں عمارت کا نام تبدیل کیا اور اسے دوبارہ تعمیر کیا۔
زیادہ تر امیر عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ کاروبار میں مصروف ہیں اور اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کر چکےہیں۔
انتہائی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی اسلامی ریاست ایران جیسا رد عمل ظاہر کرتی ہے تو مغربی ممالک اور متحدہ امریکہ نے اسے معاشی طور پر نقصان پہنچا دیتے ہیں۔غزہ جنگ میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 34 ہزار سے زیادہ ہےمزید برآں سربراہی اجلاس سےقبل سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عرب اور مسلم حکام کے اجلاس میں عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف ’جنگی جرائم‘ کے جواب میں اسرائیل پر ’موثر پابندیاں‘ عائد کرے۔ سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے غزہ کی جنگ پر تبادلۂ خیال کے لیے وزارتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی تھی ۔ یہ کمیٹی مشترکہ عرب اسلامی غیر معمولی سربراہی اجلاس کی طرف سے تفویض کردہ ہے۔ اجلاس میں اردن، مصر اور ترکی کے وزرائے خارجہ کے علاوہ قطر، فلسطینی اتھارٹی اور اسلامی تعاون تنظیم کے حکام نے شرکت کی تھی سعودی وزارتِ خارجہ حکام نے بین الاقوامی برادری سے اسرائیل پر “مؤثر پابندیاں” لگانے کا مطالبہ کیا تھا اور ملک کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے جیسے اقدامات کی وکالت کی تھی ۔
حکام نے اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے اور غزہ اور مغربی کنارے دونوں میں “جنگی جرائم” کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا اور جنوبی غزہ کے شہر رفح پر اسرائیل کے حملے کی مخالفت کا اظہار کیا تھا جس کا طویل عرصے سے خدشہ ہے۔ سعودی وزارتِ خارجہ نے اپنی ویب سائٹ پر کہا تھا کہ حکام نے “ان جرائم پر اسرائیلی حکام سے جواب طلبی کے لیے بین الاقوامی قانونی ذرائع کو فعال کرنے، آبادکاروں کی دہشت گردی کو روکنے اور اس کے خلاف واضح اور مضبوط مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔” مذاکرات میں فلسطینیوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے کے راستے تلاش کیے گئے۔ حکام نے مغرب میں فلسطینی حامی مظاہرین کے خلاف کیے گئے اقدامات پر بھی تشویش کا اظہار کیاتھا ۔ خیال رہےکہ شہزادہ فیصل نے غزہ کی جنگ پر تبادلۂ خیال کے لیے ریاض میں چھے فریقی عرب وزارتی گروپ کے اجلاس کی صدارت کی تھی۔
وزیر خارجہ سعودی عرب شہزادہ فیصل بن فرحان کا غزہ کی صورتحال کو ہر حوالے سے تباہی کن کہتے ہوئے ورلڈ اکنامک فورم کانفرنس میں کہنا تھا کہ غزہ میں ہونے والی مسلسل تباہی اس امر کو نمایاں کرتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر امن اور سلامتی کے لیے موجود ‘میکانزم ‘ ناکام ہوگیا ہے ۔ سعودی عرب کو بہت امید ہے کہ رفح میں اسرائیل کی جنگی کاروائی سے پہلے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پاجائے گا ۔
واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا تھا کہ اگلے چند دنوں میں فلسطینی عوام رفح پر اسرائیلی حملہ دیکھ رہے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا رفح پر ہونے والا ممکنہ حملہ ایک بار پھر لاکھوں فلسطینیوں کی نقل مکانی کا باعث بنے گا جیسا کہ غزہ میں ہوا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کا غالب حصہ تباہی کرکے ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے اور لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر کے نقل مکانی پر مجبور کردیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ غزہ اس وقت ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے ۔ لگ بھگ ساڑھے 34000 فلسطینیوں کی اس غزہ جنگ میں ہلاکت کا چکی ہے جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے ۔ وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کہنا تھا کہ ہمارے لیے زیادہ پریشانی کی ایک بات یہ ہے کہ غزہ جنگ کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر سلامتی کے لیے بروئے کار میکانزم مکمل طور پر ناکام نظر آرہاہے ۔حتی کہ یہ میکانزم انسانی بنیادوں پر جنگ زدہ غزہ کے لوگوں کے لیے خوراک کی تقسیم اور ترسیل ممکن بنانے کے لیے بھی ممکن نہیں نظر آتا ۔ یہ بحث کبھی ختم نہ ہونے والی رہے گی کہ غزہ کے مسلمانوں کی مدد کے لیے کافی امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوسکے ہیں یا نہیں ۔
یہ صورتحال تباہ کن اور بہت خوفناک ہے ۔ حتی کہ تباہ کن سے بھی زیادہ بدترین ہے ۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اس موقع پر مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے بارے میں سعودی موقف کا اعادہ کیا اور کہا تھا کہ ‘یہی ایک قابل بھروسہ ،جائز اور معقول حل ہے ۔ اس حل کو اپنانے کے لیے یہ ضمانت دینا ہوگی کہ ہم بحران کو دوبارہ جنم نہیں لینے دیں گے بتایا گیا کہ سعودی عرب اپنے شراکت داروں خصوصا یورپی شراکت داروں کے ساتھ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات لے لیے کوشاں ہے ۔ وزیر خارجہ سعودی عرب نے کہا تھاکہ اس معاملے کو متحارب فریقین پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ یہ خطے کے تمام لوگوں کے مفاد میں ہے ، فلسطینیوں کے مفاد میں ، اسرائیلیوں کے مفاد میں ہے حتی کہ پوری عالمی برادری کے مفاد میں ہے کہ اس مسئلہ فلسطین کا حل نکلے ۔
وضاحت کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا تھاکہ مملکت سعودی عرب وہ سب کچھ کرے گی جو اس کے لیے ممکن ہے اور صحیح سمت میں ہوگا ۔ خیال رہےکہ وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نےسعودی سرمایہ کاروں کے وفد کی پاکستان آمد کے باعث سربراہی اجلاس گیمبیا بنجول کا دورہ منسوخ کیا ہے ۔۔ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار 2 اور3 مئی وزرائے خارجہ اجلاس اور 4 سے 5 مئی کو سربراہان مملکت اجلاس میں پاکستان کے وفد کی قیادت کریں گے ۔ ڈپٹی وزیراعظم غزہ کی صورتحال, کشمیر کے حوالے سے فورم کو آگاہ کرینگے ، 1950 میں جنم لینے والے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار 80 کی دہائی کے اواخر سے سیاسی منظر نامے پر، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے رکن کی حیثیت سےموجود ہیں۔ سینیٹ میں اپویشن لیڈر، اسحٰق ڈار کو مالیات و اقتصادیات کے شعبے میں ان کی اہلیت کی بنا پر قابلِ تعظیم نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ 99-1997 پر محیط نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں وفاقی وزیرِ خزانہ، اقتصادی امور، ریونیو اور شماریات رہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اہم شخصیت خیال تصور کیے جانے والے اسحٰق ڈار 2002 سے پارٹی کے عالمی امور کی نگرانی کرتے آرہے ہیں۔ 4 بار رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہونے کے علاوہ، وہ متعدد بار سینیٹ کے رکن بھی منتخب کیے جاچکے ہیں اور زیادہ تر انہیں سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر کا منصب سونپا گیا۔ وفاقی وزیر کی ذمہ داریاں سونپے جانے سے قبل وہ 93-1992 کے دوران وزیرِ مملکت / پاکستان انویسٹمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو بھی رہے۔ وہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے بھی صدر بھی رہ چکے ہیں۔ 2008 میں وہ مختصر مدت کے لیے وفاقی وزیرِ خزانہ رہے مگر جب ان کی جماعت نے وفاق میں پی پی پی کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا تو اسحٰق ڈار نے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا۔ جب 2013 میں مسلم لیگ(ن) دوبارہ اقتدار میں آئی تو وزیر خزانہ کے عہدے کے لیے قرعہ فال ایک بار پھر اسحٰق ڈار کے نام نکلا اور پھر 2022 میں اتحادیوں نے جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے دوبارہ حکومت سنبھالی تو چند ماہ اقتصادی امور کی نگرانی کرنے والے مفتاح اسمٰعیل کی جگہ ملک کی وزارت خزانہ کی ذمے داریاں دوبارہ اسحٰق ڈار کو سونپی گئی تھیں۔
وہ سینیٹ کی مختلف قائمہ کمیٹیوں کے بھی رکن ہیں۔ جن میں دفاع و دفاعی پیداوار، امورِ کشمیر و گلگت ۔ بلتستان، تجارت و خزانہ، روینیو، اکنامکس افیئرز، شماریات، منصوبہ بندی اور ترقیات و نجکاری کی کمیٹیاں شامل ہیں۔
ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار آئینی اصلاحات کے لیے قائم کردہ اُن پارلیمانی کمیٹیوں کا بھی حصہ رہے جس نے وہ مسودہ قوانین تیار کیے، جن کے تحت آئین میں کی جانے والی 18ویں، 19ویں اور 20ویں ترمیم ممکن ہوسکیں۔ ان کی شان دار پارلیمانی خدمات کے اعتراف میں پیپلز پارٹی کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت نے 2011 میں انہیں ملک کے اعلیٰ ترین سول اعزاز نشانِ امتیاز سے نوازا تھا۔ تاہم انہوں نے اپنی جماعت کے دیگر رہنما کی طرح اس وقت صدر آصف علی زرداری کے ہاتھوں سے اعزاز لینے سے انکار کردیا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور، پنجاب یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس انگلینڈ اینڈ ویلز جیسے معتبر تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈارنے متعدد عالمی اہمیت کے حامل مالیاتی اداروں بشمول ورلڈ بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ وہ متحدہ عرب امارات کے حکمراں خاندان کے ایک رکن کے مالیاتی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔مسلم امہ کو غزہ کی صورتحال پر تشویش ہے۔ یاد رہےکہ چند روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے دورہ سعودی عرب میں وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کیا ہے۔ حکومت پاکستان کے کابینہ ڈویژن سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کو تاحکم ثانی فوری طور پر نائب وزیر اعظم مقرر کیا ہے۔
آئین میں نائب وزیراعظم کا باقاعدہ کوئی عہدہ نہیں ہے البتہ نائب وزیراعظم پاکستان کا عہدہ 25 جون 2012 کواس وقت کے وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے تخلیق کیا تھا۔راجا پرویز اشرف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد مسلم لیگ (ق) کے مطالبے پر چوہدری پرویز الہٰی کو نائب وزیراعظم کا عہدہ دیا تھا اور اس طرح وہ پاکستان کے پہلے نائب وزیراعظم قرار پائے تھے۔
پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ ممتاززہرہ بلوچ کا کہنا ہےکہ سعودی سرمایہ کاروں کا وفد چند روز میں پاکستان پہنچے گا ۔ وزیراعظم شہبازشریف وفد سے ملاقات کریں گے ۔سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے نئی حکومت کی تشکیل کے بعد سب سے پہلے سعودیہ کا دورہ کیا جس کے نتیجے میں سعودی عرب کے وزیر اعظم کی ہدایت پر یکے بعد دیگرے سعودی عرب کے وفود نے پاکستان کادورہ کیا اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں پر پیش رفت ہوئی جوپاکستان کی معاشی بحالی کیلئے اہم قدم ہے دیکھا جائے تو اصل امید ہمیں سعودی عرب کے وزیر اعظم کی پاکستان کے دورے سےہیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے حال میں سعودی ہم منصب کو دورہ پاکستان کی دعوت دی تھی جو قبول کرلی گئی وفود کے دوروں کے بعد تاریخ کا طے ہونا باقی ہے پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے دورہ سعودی عرب میں بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے راہ ہموار کی گئی تھی جس کے ثمرات مل رہے ہیں