اتوار,  24 نومبر 2024ء
!!امی جی سے ادھوری ملاقاتیں۔۔۔

تحریر: شہریاریاں ۔۔ شہریار خان

سب کی سالگرہ بہت محبت کے ساتھ منانے والی امی جی کا ہمیں بہت عرصے تک پتا نہیں چلا کہ وہ اپنی سالگرہ کیوں نہیں مناتیں۔۔ ایک روز کسی نے پوچھا کہ آپ کی تاریخ پیدائش کیا تھی تو بس مسکرا دیں۔ اپنی نانی سے سوال پوچھا تو جواب سن کر حیران رہ گئے۔ نانی اماں کا کہنا تھا کہ وہ اسلامی مہینہ کی پندرہ تاریخ تھی۔۔ سال اور مہینہ کیا تھا انہیں اندازہ بھی نہیں تھا نہ یاد تھا۔

خیر وہ دور تھا ہی ایسا کہ جہاں بیٹیوں سے زیادہ بیٹوں سے پیار کیا جاتا تھا اس لیے امی جی کو بھی جب بیاہ کے بھیجا گیا تو یہی کہا گیا کہ اب تمہاری لاش ہی وہاں سے آئے۔ انہوں نے بھرپور انداز میں اپنے والدین کی یہ بات نبھائی۔۔ سسرال ملا تو ایسا کہ جہاں ابو جی کے دو بڑے بھائی کنوارے تھے اور دو چھوٹے بھائی۔۔ ابو جی منجھلے تھے مگر دادا جی کے افسر تھے اس لیے جلدی شادی کر دی۔

امی جی ابھی آٹھویں جماعت میں تھیں اور ابو جی ایف اے کر رہے تھے جب ان کی شادی ہو گئی۔ تمام خاندان کے ساتھ اس طرح نبھایا کہ خود اپنی زندگی جینا بھول گئیں۔ اپنے دونوں جیٹھوں کی شادیاں کیں۔۔ پھر ایک دیور اور میرے ابو جی کی لاڈلی بہن کی شادی بھی اس طرح کی جس طرح کوئی اپنی بیٹی کو رخصت کرتا ہے۔
ان کا یہ خلوص صرف سسرال کے لیے نہیں تھا، میکہ سے کوئی آتا تو ان کے لیے بھی اسی طرح دسترخوان سجایا جاتا، اپنے ابو جی کو میں نے اپنے ہوش میں کبھی امی جی سے لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا۔۔ شاید کبھی چھپ کر لڑتے ہوں مگر انڈر سٹینڈنگ ایسی تھی کہ جب امی جی کچھ فیصلہ کر دیتیں تو ابو جی نے کبھی اختلاف نہیں کیا۔
ابو جی کہتے تھے کہ یار تمہاری ماں بہت کمال کی خاتون تھی۔ پیسے جوڑ جوڑ کے پہلے گھر بنایا۔۔ پھر گھر کرائے پر دے کر اس سے بچت شروع کر دی جو کبھی میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ جب کبھی ضرورت پڑے تمہاری ماں نے رقم ہاتھ میں رکھ دی۔

ایک مرتبہ بتایا کہ تمہاری بڑی بہن نورین کا رشتہ آیا تو انہوں نے فوری شادی کی شرط رکھی۔۔ چند روز میں شادی ہونا تھی امی جی نے ہاں کر دی، ابو جی نے اس رات پوچھا کہ اتنی جلدی کیسے انتظام ہو گا؟۔ تو امی جی نے زیورات اور کپڑے نکال کر دکھا دئیے کہ بیٹیوں کے لیے آپ نے پریشان نہیں ہونا۔ ابو جی کہتے تھے کہ میں حیران تھاکہ اس خاتون نے میری سفید پوشی کا ساری زندگی بھرم بھی رکھا۔

مہمان آتے تو وہ حیران رہ جاتے کہ اتنے پکوان ایک خاتون کیسے اتنی جلدی تیار کر سکتی ہے؟۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں باہر سے الا بلا کھانے سے ہمیشہ روکا۔ جو بھی کھانا ہے مجھے بتاﺅ، میں گھر میں بنا کر دیتی ہوں اور مزا ایسا کہ بڑے سے بڑا شیف وہ ذائقہ نہیں لا سکتا۔

ہم کبھی امی جی کی بہت زیادہ مہمان نوازی پہ شکوہ کناں ہوتے تو کہتیں کہ بیٹا یہ مہمان اللہ بھیجتا ہے، معلوم ہے کہ جو تم سب کھاتے ہو ان کے نصیب کا کھاتے ہو؟۔۔ اس وقت شاید ہمیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ کئی بعض گھر جو محلہ کی تعریف پہ بھی پورا نہیں اترتے تھے ان کو بھی مختلف پکوان بھجوایا کرتیں۔

جب محفل میلاد کا اہتمام کرتیں تو ہم حیران رہ جاتے کہ کتنی دور دور تک جا کر بلاوے دیا کرتیں۔۔ اور حیران کن طور پر تمام خواتین آیا بھی کرتیں۔۔ یہ رونقیں یکم سے بارہ ربیع الاول تک ہوا کرتیں۔ صبح مردانہ میلاد ہوا کرتا تو اس میں جامعہ مسجد رضویہ ضیاالعلوم سے طالبعلم آ جایا کرتے۔۔

جب بچے ختم قرآن پاک کے بعد نعت پڑھا کرتے تو وہ گھر کے اندر ہوتیں مگر کھانا پکاتے ہوئے ساتھ ساتھ نعت پڑھا کرتیں اور جب سلام پڑھا جاتا تو سب سے کہتیں کہ ادب سے کھڑے ہو جاﺅ۔۔ ایسے میں مسلسل روتی جاتیں۔ مدرسے کے بچوں کے لیے بھی کھانا خود بناتیں اور کہتیں جتنا کھانا ہے کھاﺅ۔۔

شام کو زنانہ محفل میلاد ہوا کرتی تو اس کے لیے بھی خوب اہتمام کیا کرتیں۔۔ جب ہم کہتے کہ کسی نائی سے کھانا کیوں نہیں بنوا لیتے ہم لوگ؟۔۔۔ تو کہا کرتیں کہ میں یہ ثواب کسی کو نہیں دینا چاہتی۔ سب کے لیے کھانا خود بنایا کرتیں۔۔

ہمارے سکول جانا ہو تو بھی وہ خود جاتیں کیونکہ جب ہم سکول جاتے تو ابو جی سو رہے ہوتے تھے اور جب ہم سو جاتے تھے تو وہ گھر آیا کرتے تھے۔ بڑے بہن بھائیوں کو مشاعروں اور تقریری مقابلوں میں بھی خود لے کر جایا کرتیں لیکن کبھی بھی انہیں زیادہ کام کرنے کی شکایت کرتے نہیں دیکھا تھا۔

وہ صبح فجر کے وقت اٹھا کرتیں تو پھر تلاوت کیا کرتیں، واک کرنے کے بعد آ کر سب کو ناشتہ بنا کر دیتیں۔۔ جب ہماری نانی آئی ہوئی ہوتیں تو ہمارے زیادہ مزے ہوتے کہ چھٹیوں کے دنوں میں ہم ناشتہ بھی اکٹھے کر لیتے تھے۔۔ وہ پتھر کی سل پر لہسن اور سرخ مرچ کی چٹنی بناتیں اور روٹی پر مکھن کا پیڑا رکھ کر ہم چپڑی ہوئی روٹی چٹنی کے ساتھ کھاتے۔

مزید پڑھیں: ابو بچاؤ مہم جاری ہے۔

سب کی سالگرہ اور خوشیاں انہیں یاد ہوتیں، انہیں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی تاریخ پیدائش عیسوی سال کی بھی یاد ہوا کرتی اور اسلامی بھی۔ کبھی بھی کسی کی سالگرہ کا اہتمام کرنا نہیں بھولتی تھیں۔ سب کی خوشیاں منایا کرتیں ، ہر عید پر ہم سب کے لیے بے حد اہتمام کیا کرتیں مگر خود آخری وقت تک سب کے ناشتے اور کھانے کا خیال کیا کرتیں اور سب سے آخر میں تیار ہوا کرتیں۔

آج 21اپریل کو امی جی کو ہم سے بچھڑے ہوئے پچیس سال بیت گئے ہیں۔ آج بھی ان کی قبر پہ جاتے ہیں تو تاریخ انتقال ہی لکھی ہوئی ہے۔۔ تاریخ پیدائش نہیں۔۔عجب دستور زندگی ہے جن کے بغیر کبھی ایک پل نہیں گزرتا تھا، اب ہماری ملاقاتیں صرف خوابوں میں ہی ہوتی ہیں، قبرستان میں ملنا بھی کیا ملنا ہے کہ نہ وہ میرے ماتھے پر بوسہ دے سکتیںنہ میں ان کے پیر چوم سکتا ہوں۔۔ بس ادھوری سی ملاقات ہی ہے اب نصیب میں۔

یا رب کریم میری امی جی کا اس جہان میں بہت خیال رکھنا جیسے انہوں نے ہمارا خیال رکھا۔۔۔

مزید خبریں