جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم پاکستانیوں نے بحیثیت قوم کبھی اپنی ناکامی کو تسلیم نھیں کیا ہے۔ چاہے وہ اپنے ملک میں انتظامی امور کے میدان میں ناکامی ہو۔ ملکی معیشت میں زبوں حالی کا میدان ہو۔ ذرعی ملک ہونے کے باوجود ذراعت کے شعبے میں ناکامی کی وجہ ہو۔ برآمدات و درآمدات کے شعبے میں مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ناکامی کی بات ہو۔ صوبائی معاملات میں ناکامی ھو، قومیتوں اور لسانی یکجہتی اور قومی وحدت کو برقرار رکھنے میں ناکامی کا سلسلہ ہو، اندرون ملک امن و امان برقرار رکھنے میں ناکامی کا مسئلہ ہو، صوبائی تعصب پھیلانے یا پھیلنے کا سدباب کرنے میں ناکامی کا سامنا ہو۔ مقبوضہ کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ ملانے کی بات ھو، یا سیاچین ہر ہندوستان کا قبضہ کرنے کی وجہ، جس سے ہم نے من حیث القوم آنکھیں بند کر رکھی تھی۔ آفات خداوندی میں لوگوں کی جان و مال کو محفوظ رکھنے میں ناکامی ہو، یھاں تک کہ امن و امان کی صورتحال میں ڈکیتیوں، چوریوں اور لوٹ مار روکنے میں ناکامی کا صورتحال ھو۔یا روز معمول کے مطابق مسلسل خودکش دھماکوں کا سلسلہ ہو الغرض ملکی اندرونی و بیرونی سیاسی و سفارتی اور تجارتی محاذ وں پر ناکامی یا مطلوبہ نتائج کے حصول میں کمی بیشی کے معاملات ہوں۔ پاکستان کے پالیسی سازوں اور ان کاموں کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے ذمہ داران اپنی ناکامیوں کی تمامتر ذمہ داریوں سے خود کو بری الزمہ قرار دیتے ہیں، اور ناکامیوں کا سارا بوجھ بیرونی ہاتھ اور سازش کے پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ ملکی معاملات کے ذمہ داروں کا یہ وطیرہ رھا ہے کہ ھر شعبہ زندگی میں ناکامی کی وجہ بیرونی ملک دشمنوں کا ھاتھ قرار دیتے ہیں۔ جس سے وہ اپنے آپ کو مبرا سمجھتے ہیں اور یہ تسلیم کرنے کی کسی میں جرات ہی نھی ہے کہ ملک و قوم کے ان امور کی کامیابی سے انجام دینے کے زمہ دار ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ جب ان زمہ دار انتظامیہ کو بیرونی ہاتھ ملکی انتظام و انصرام کی ناکامی کی صورت میں بعد میں نظر آتا ہے۔ تو پہلے سے ان بیرونی ہاتھوں کو روکنے کی کوشش کیوں نھیں کی جاتی۔ ان کو پاکستانی معاملات میں مداخلت کرنے والے بیرونی ھاتھ پہلے کیوں نظر نھیں آرہے تھے۔ جنکو روکنے کا بندوبست کرنا بھی انکی ذمہ داری تھی۔ کیونکہ کسی بھی شعبہ زندگی کو ناکامی سے دوچار کرنا ایک دن، ایک ہفتہ، ایک ماہ میں نا ممکن ہوتا ہے۔ کسی بھی غیر ملکی منصوبے کو ناکام کرنے کیلئے سالہا سال سے منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ جس کے تمامتر ناکامی و کامیابی کے مضمرات کو مد نظر رکھنا۔پڑتا ہے۔ ساتھ ساتھ اس منصوبے کو روکنے میں ناکامی کی صورت میں متبادل صورتحال کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے اور اس منصوبے میں کامیابی کی صورت میں اس کے ثمرات سے مستفید ہونے کے ترجیحات کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں کوئی بھی دشمن ملک اپنا چال روکتا نھیں ہے بلکہ اس کو مزید آگے بڑھنے کے کامیاب طریقہ کار پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ دشمن کوئی بھی موقع کبھی بھی ضائع نہیں کرتا۔ اسی طرح بیرونی دشمن قوتوں کے ہاتھ روکنے کیلئے اور انکی منصوبہ بندیوں سے ملکی انتظامیہ کو آگاہ رکھنے کیلئے موثر ترین ادارے بھی موجود ھوتے ہیں۔ جو اپنے ملک کے خلاف دشمنوں کے منصوبوں پر کھڑی نظر رکھتے ہیں۔ وہ دشمنوں کے عزائم سے اپنے ملکی انتظامیہ کو بر وقت آگاہ کرتے ہیں چاہے انکو اس ملک دشمن منصوبے کے بارے میں خبر پاتال سے بھی ڈونھونذ کر لانی پڑے ۔ لھذا ملکی انتظامیہ والے پیش بینی کی خاطر کسی بھی ایسے بیرونی ہاتھ کو قبل از وقت روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔ جو ملک کے اندرونی سیاسی پر امن حالات کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا ملک و قوم کے ترقیاتی منصوبے کو ناکام کرنے میں ملوث ہوتے ہیں۔ یا سفارتی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتے ہیں۔ یا تجارتی اور بین الاقوامی معاملات کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لھذا قومی سطح پر ھم اپنی ناکامیوں پر جب بھی نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک ہی خبر سننے کو ملتی ہے جس کو من و عن ہر سطح پر تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس جھوٹ پر مبنی خبر کی قومی سطح پر ایک منظم طریقے سے تشہیر کی جاتی ہے۔ اور رات پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر عام لوگوں کے ذھنوں میں ایک ہی بات بٹھا دی جاتی ہے کہ پاکستانی قوم کی ترقی میں ناکامی کی اصل وجہ بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے اور بیرونی مداخلت ہے۔ اس مہم کو عوامی تحریک بناکر کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ کئے جاتے ہیں۔ جو اپنے ان ظبلچی، بھاںسری اور باجہ بجانے والے میذیا ٹولے کو دی جاتی ہے جنکے ہاتھوں میں تشہیر کے وہ تمام آلات ہوتے ہیں ۔ جن سے وہ عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں ملک و قوم کو تین طرح کے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ ایک معیشت کی تباہی اور دوسری وجہ اس ترقیاتی منصوبے سے مثبت نتائج کے حصول میں ناکامی اور تیسری ان ںاکام ترین انتظامی امور پر مسلط کردہ ذمہ دار عناصر کو انھی کرسیوں پر براجمان رہنے کا موقع۔ جو اپنی زمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ملک و قوم کی تباھی و بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستانی قوم وملک کو اگر زندگی کے ہر شعبے میں صحیح معنوں میں ایماندار اور قومی جذبہ سے سرشار انتظامیہ مل جائے۔ جن کو قومی ذمہ داریوں کا احساس ہو تو کوئی وجہ نھیں کہ ہمارے قومی معاملاتِ میں کسی بھی بیرونی ھاتھ کو ملوث ہونے کا موقع مل سکے۔ جس سے ہمارے ترقیاتی منصوبوں پر منفی اثرات پڑنے یا ناکام ہونے کا اندیشہ ہو۔
پاکستانی قوم و ملک کے مستقبل میں کامیابی کے حصول کیلئے اس فرسودہ مروجہ طریقہ کار کو اب ترک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ رٹے رٹائے بیانات پر اب پاکستانی قوم اعتبار کرنے کی روادار نھیں ہے۔ ان کو سچ اور حقائق پر مبنی اور انکی قومی سطح ہر ایماندار اور ہر خلوص قومی جذبے سے سر شار سربراہان کی ضرورت ہے۔ جو ملکی اداروں کو سچ کی بنیاد پر چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔