شہریاریاں ۔۔۔ شہریار خان
پولیس کے ساتھ ہمدردی کی باتیں بہت زیادہ کی جا رہی ہیں۔۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم تصویر کا ایک رخ دیکھتے ہیں۔۔ دوسری جانب کا موقف ہم جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ چند واقعات ماضی کے ہیں جو میرے خاندان اور مجھ سے متعلق ہیں وہ آج شیئر کرتا ہوں۔
میرے بڑے بھائی وقار بھائی کا صدر راولپنڈی میں سنوکر کلب بھی ہوا کرتا تھا اور اپنا اخبار اور پرنٹنگ پریس بھی چل رہا تھا۔ ایک روز سنوکر کلب میں لگا جنریٹر چوری ہو گیا۔ خاصا مہنگا جنریٹر تھا۔ پولیس میں رپورٹ کی اور اسی دوران ایک دوست نے ایک شخص کا بتایا جو ایسے ہی چوری شدہ سامان خریدا کرتے، اس نے بتایا کہ آپ کا جنریٹر بھی اس کے پاس ہے جو میں دیکھ کر آیا ہوں۔
وقار بھائی نے اس حوالہ سے تفتیشی افسر کو آگاہ کیا، اس نے رات کو خوشخبری سنائی کہ آپ کا یاماہا کا جنریٹر بھی برآمد ہو گیا ہے اور جس نے مال مسروقہ خریدا وہ بھی گرفتار ہو گیا ہے۔ آپ صبح آ جائیے گا۔ صبح تک معاملات تبدیل ہو گئے اور کچھ رقم کے عوض جنریٹر تبدیل کر دیا گیا، جب میں وہاں پہنچا تو تفتیشی نے مجھے جنریٹر دکھایا میں نے کہا رات کو آپ نے کہا تھا آپ والا یاماہا جنریٹر مل گیا ہے تو یہ جنریٹر جو آپ دکھا رہے ہیں یہ تو کوئی سستا سا جنریٹر ہے جو ہمارا نہیں ہے۔
اس نے مجھے کہا کہ سادہ کاغذ پر لکھ دیں کہ یہ ہمارا جنریٹر نہیں ہے، میں نے بھی سادگی میں یہ لکھ کر دے دیا۔ شام کو پرنٹنگ پریس کے مینیجر کا فون آیا کہ تھانہ کینٹ کا تفتیشی آیا تھا اور وہ وقار بھائی کو گرفتار کر کے لے گیا ہے۔۔ میں بہت پریشان ہوا، والد کو اطلاع دی اور افتخار بھائی کو بھی بتایا جس کے نتیجے میں بھائی تو رہا ہو گئے مگر تفتیشی صاحب چونکہ نقد رقم وصول کر چکے تھے اس لیے اس چور کو بھی چھوڑ دیا گیا۔
اس واقعہ میں ملزم سے معاملہ طے پانے پر مدعی کو ملزم بنا دیا گیا تھا اور ملزم تھوڑی سی رقم دے کر الزام سے بچ گیا۔ ان ہی بڑے بھائی وقار بھائی کا بیٹا جو غالباً پندرہ برس کا تھا، کسی بات پر والد سے ڈانٹ پڑنے پر وہ غصے میں گھر سے نکلا۔۔ ایک دوست کے گھر گیا۔۔ وہاں سے دونوں میٹرو پر بیٹھے اور پشاور موڑ پر اتر گئے۔۔ اسٹیشن سے باہر آتے ہی کراچی کمپنی پولیس کے سپاہیوں نے انہیں روک لیا۔۔ ظاہر ہے کم عمر تھے گھبرا گئے۔
بس پھر کیا تھا پولیس والے انہیں ساتھ لے گئے۔۔ رات کافی دیر ہو جانے پر جب گھر والے پریشان ہوئے تو اس کی تلاش شروع کر دی۔ سب دوستوں کے گھر دیکھ لیا مگر وہ نہیں ملا، رات زیادہ ہو جانے کے سبب بھائی نے مجھے نہیں بتایا۔ صبح جب مجھے اطلاع ملی تو بہت زیادہ پریشان ہو گیا۔فوری بھائی کے گھر پہنچا اور پھر تمام کہانی سننے کے بعد میں نے اپنے بھتیجے کی موبائل فون لوکیشن چیک کروائی تو رات گئے تک اس کی لوکیشن کراچی کمپنی میں ایک بیکری کے ساتھ آ رہی تھی۔۔ میں نے گاڑی وہاں موڑی اور جب بیکری کے سامنے پہنچا تو میری نظر سامنے بورڈ پر پڑی۔۔ تھانہ کراچی کمپنی۔
میں تھانہ میں پہنچا اور ایس ایچ او کا پوچھا۔۔ ایس ایچ او موجود نہ تھے۔۔ ایک تفتیشی بیٹھا تھا اس سے اپنے بھتیجے کے حوالہ سے پوچھا۔ اس نے بڑے اطمینان سے کہا وہ جو ڈکیتی میں پکڑے گئے ہیں؟۔ میں نے کہا مجھے دکھاﺅ کون ہیں؟۔ پہلے اس نے مجھے نظر انداز کرنے کی کوشش کی، جب میں نے تعارف کروایا تو اس نے ایک سپاہی کو کہا ڈکیتی والے لڑکوں کو لاﺅ۔۔
اس کے بعد وہ خود وہاں سے غائب ہو گیا۔۔ وہ سپاہی جب میرے بھتیجے اور اس کے دوست کو لایا تو ان سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ بھتیجا آتے ہی میرے گلے لگ کے رونا شروع ہو گیا۔ میں نے جب پوچھا تو اس نے بتایا کہ ان دونوں کو تھرڈ ڈگری ٹارچر کیا گیا ہے۔ میرا خون کھول گیا۔ تھانے کے تمام افسران غائب ہو گئے تھے۔ میں نے اپنے بھائیوں کو اطلاع دی کہ بچہ مل گیا ہے۔
ایک بھائی افتخار بھائی ڈان اخبار میں ہیں اور جن کا بیٹا تھا وقار بھائی دونوں وہاں پہنچ گئے ۔ تھانے والوں سے پوچھا تو سپاہی بولا کہ جو تفتیشی ابھی یہاںآپ سے ملے تھے وہی انہیں پکڑ کے لایا تھا اور اسی نے تشدد کیا ہے، میں نے پوچھا کہ تشدد کیوں کیا؟۔ تو اس نے کہا تفتیشی نے کہا تھا کہ ڈکیتی کی کال چلی تھی اور فوراً ہی یہ دونوں مل گئے۔
افتخار بھائی نے وزارت داخلہ میں ایک دوست کو فون کیا تو تھوڑی دیر میں ایس ایچ او وہاں پہنچ گیا اور اس سارے واقعے کو جائز بنانے کے لیے وضاحتیں دینے لگا، میں نے کہا اگر ڈکیتی کا شبہ تھا بھی تو پرچہ کیوں نہیں کاٹا اور کسی قسم کی رپورٹ کیوں نہیں درج کی گئی۔ ان کی گرفتاری کا کوئی بھی ریکارڈ نہیں تھا۔ بھتیجے کے دوست نے بتایا کہ اس کے والد سے انہوں نے پیسے مانگے تھے اور وہ رقم کا بندوبست کرنے گئے تھے، یعنی تقریباً چوبیس گھنٹے بچوں کو گرفتار کر کے تھانے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا مگر ان کی گرفتاری نہیں ڈالی گئی، وجہ صاف تھی یعنی رقم بٹورنا۔ان دو واقعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ اس ملک میں اگر پیسہ ہے یا تعلقات ہیں تو پھر پولیس سے آپ بچ سکتے ہیں ورنہ ان سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔
مزید پڑھیں: ابو بچاؤ مہم جاری ہے۔
کل ہی ملت ایکسپریس ٹرین کا واقعہ سامنے آیا جہاں ریلوے پولیس کے ملازم نے بغیر ٹکٹ سفر کرنے والی خاتون پر تھپڑوں کی بارش کر دی۔ اس کے ساتھ چھوٹا بچہ بھی تھا، وجہ کوئی بھی ہو آپ یہ نہیں کر سکتے کہ خاتون پر تشدد کریں۔
اب میں آتا ہوں بہاولنگر پولیس سٹیشن کے واقعہ کی جانب، میں قطعاً یہ نہیں کہتا کہ پولیس ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنانا درست تھا۔۔ لیکن یہ سوال آپ کے لیے بھی چھوڑتا ہوں کہ اگر آپ کے پاس پیسے ہوں نہ سفارش اور آپ کے کسی بھائی یا رشتے دار کو پولیس والے ایسے ہی کسی کیس میں پھنسا لیں تو آپ کے پاس کیا آپشن ہو گی؟۔ کیا پیٹی بھائی اپنے کسی دوسرے پیٹی بھائی کے خلاف کوئی کارروائی ہونے دے گا؟۔ کیا ہماری عدالتوں سے فوری طور پر ریلیف ملتا ہے؟۔آج جو پولیس کے اہلکاران اپنی وڈیوز میں وردی کو آگ لگا رہے ہیں کہ ان کی انا مجروح ہوئی کبھی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کتنے شریف شہریوں کی پگڑی اچھالی ہو گی۔ اپنی ذاتی دشمنی نکالنے کے لیے کتنی مرتبہ وردی کا استعمال کیا، کتنے معصوموں کی جیب سے چرس برآمد کر کے ان سے رشوت بٹوری، اس وقت ان شہریوں کی انا مجروح نہیں ہوتی ہو گی۔ ہمیں آپ تصویر کا ایک رخ نہ دکھائیے اور بتائیے کہ بہاولنگر میں تین خاندانوں کو اذیت دی اور تشدد کا نشانہ بنانے پر کچھ شرم آئی یا نہیں؟۔ یہ رونا بند کیجئے، ایک سیاسی جماعت کا ایجنڈا لے کر بڑے بھائی کے خلاف پراپیگنڈا کرنا ختم کریں۔
میرے خیال میں تو یہ سارا نظام تبدیل ہونا چاہیئے ورنہ ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور مجھے ڈر ہے کہ اس ملک کے شریف شہریوں نے جب خود انصاف کرنا شروع کر دیا تو پھر حالات بہت زیادہ خراب ہوں گے، اس سے پہلے ہی ہمیں پولیس نظام میں اصلاحات لانا ہوں گی۔