جمعرات,  02 مئی 2024ء
طالبان ایک فخریہ پیشکش

سید شہریار احمد ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

اب چونکہ پاکستان بھر میں ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری ہیں اور تقریبا ہر دوسرے روز ہم سنتے ہیں کہ عوام، سرکاری اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے معمول بن چکے ہیں تو اج طالبان پر بات کی جائے۔

طالبان جو کہ نہ صرف پاکستان، بلکہ پوری دنیا خاص طور پر مسلمان ممالک میں دہشت گردی اور قتل و غارت کی علامت بنے ہوئے ہیں ایک وقت یہ پاکستان کے حکمرانوں، بشمول مذہبی جماعتوں اور خاص طور پر ائی ایس ائی کی فخریہ پیش ہوا کرتے تھے۔

اور سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ ، اسامہ بن لادن جیسے کرداروں اور پاکستان کو مشکل وقت میں استعمال کر کے تنہا چھوڑ دیتا ہے اور اس بات پر تو ہمارے اینکرز، تجزیہ کار ،حکمران اکثر واویلا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

لیکن دیکھا جائے تو یہی کچھ ہماری مذہبی جماعتیں اور سیکیورٹی ایجنسیاں بھی کر رہی ہیں
انہوں نے شدت پسندوں کو تیار کیا، انہیں جنگ کی تربیت دی، اسلحہ فراہم کیا اور روس کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں افغانستان تک پہنچانے کے لیے لاجسٹکس سپورٹ فراہم کی۔

انہیں طالبان کا خطاب دیا اور یہ ساری دنیا بشمول پاکستانی عوام اور امریکہ جانتے تھے اور طالبان کو سابقہ وزیر داخلہ پی پی پی دور حکومت میں نصیر اللہ بابر اپنے بچے قرار دیا کرتا تھا اور جنرل حمید گل نے تو میڈیا پر برملا کئی بار اعتراف کیا کے آئی ایس آئی اور سی ائی اے نے روس کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا

پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں، خاص طور پر ائی ایس ائی جن کے فرائض میں ملکی سلامتی اور استحکام کے لیے اندرونی اور بیرونی دشمنوں پر نظر رکھنا ہے وہ نہ صرف پاکستان کی سیاست سے حکومتوں کی برخاستگی، اپنی پسند کی حکومت سازی اور بوقت ضرورت، تخت حکمرانی پر براجمان ہونے کے علاوہ( یہ الگ بحث ہے کہ سیاست دانوں کی کرپشن اور نااہلیت کے باعث فوج کو حکومت کا تختہ الٹنے اور ملک پر قبضہ کرنے کا موقع ملتا ہے) ان سیاست دانوں کا احتساب کرنے اور انہیں قرار واقعی سزا دینے اور وقت پر انتخابات کرانے کی بجائے وہ حکومت کرنے پر توجہ مرکوز کر بیٹھتے ہیں
جس کے لیے پاک ارمی کو مختلف ائینی اور قانونی اداروں سے مدد لینا پڑتی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان بھر کے یہ اہم ادارے، مکمل کرپٹ اور مفلوج ہو چکے ہیں۔

طالبان کی کہانی نے تو 80 کی دہائی میں جنم لیا
اس وقت ان کو مجاہدین کا نام دیا گیا تھا ۔ جب افغانستان کی جنگ میں ائی ایس ائی اور سی ائی اے نے مشترکہ کامیابی حاصل کی تو یہی مجاہدین، ایجنسیوں کی انکھ کا تارا تھے اور پھر بعد میں اپنی جہادی سرگرمیوں کی بدولت اور اس اسلحے کے زور پر جو بذریعہ ائی ایس ائی اور سی ائی انہیں ملا تھا بڑے طاقتور اور حوصلہ مند ہو چکے تھے اور افغانستان میں حکمرانی، اپنی پسند کے نمائندوں کے ذریعے چاہتے تھے جس بنا پر ان کے ایجنسیوں سے تعلقات خراب ہونے لگے اور انہیں مجاہدین سے بدل کر طالبان کا نام دے دیا گیا اور اب یہ وہ بگڑے ہوئے بچے ہیں جن کو سیدھے راستے پر لایا جا سکتا ہے اور نہ ہی سنبھالا جا سکتا ہے۔

اب یہ ہماری طاقتور ایجنسیوں کے کنٹرول سے باہر نکل چکے ہیں اور دوسری بین الاقوامی اور بدنامی زمانہ ایجنسیوں کے ہاتھوں کھلانا بن کر اپنے ہی خالقوں کے خلاف برسر بیکار ہیں کیونکہ ان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے۔

اب اس کا حل صرف یہی ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ،ان طالبان کو را اور موساد اور خاص طور پر سی آئی اے جو ڈبل گیم کرتی ہے کہ خلاف ڈبل پیمنٹ دے کر استعمال کریں جو کہ موجودہ حالات میں ممکن نہیں کیونکہ سبوتاژ سرگرمیوں میں جتنا بجٹ درکار ہوتا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس نہیں۔

افسوس ہماری اشرافیہ اور ایلیٹ کے پاس کھوپڑیاں تو ہیں پر دماغ نہیں
اور طرفہ تماشہ یہ کہ تاریخ اور خاص طور پر اپنے تجروں سے بھی یہ کچھ نہیں سیکھتے۔

اب ہاتھوں کی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑ رہی ہیں
اور یہ جو غلط فیصلے کیے اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں نے ، ان کا خمیازہ 25 کروڑ معصوم عوام بھگت رہے ہیں اور آنے والی نسلیں بھی بھگتیں گی۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News