جمعه,  12  ستمبر 2025ء
عقل مند وزیر!
گستاخیاں!!

گستاخیاں۔۔تحریر: خالد مجید

یہ کوئی حکایت ہے ،کوئی روایت ہے کہ بچوں کو بہلانے کے لیے کہانی ہے بات پرانی ہے مگر سچ ہے ، ایک بادشاہ نے رات کو گیدڑوں کی آوازیں سنیں تو صبح وزیروں سے پو چھا کہ رات کو یہ گیدڑ بہت شور کررہے تھے ۔۔۔
کیا وجہ ہے ؟؟
۔اس وقت کے وزیر عقل مند ہوتے تھے ۔انہوں نے کہا جناب کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہوگی اس لیے فریاد کررہےہیں ۔۔۔
۔تو حاکم وقت نے آرڈر دیا کہ ان کے کھانے کا بندوبست کیا جائے۔وزیر صاحب نے کچھ مال گھر بھجوادیا اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیا۔
اگلی رات کو پھر وہیں آوازیں آئیں ۔ تو صبح بادشاہ نے وزیر سے فرمایا کہ کل آپ نے سامان نہیں بھجوایا
تو وزیر نے فوری جواب دیا کہ جی بادشاہ سلامت بھجوایا تو تھا ۔۔۔۔۔
اس پر بادشاہ نے فرمایا کہ پھر شور کیوں ؟؟؟

تو وزیر نے کہا جناب سردی کی وجہ سے شور کررہےہیں۔
تو بادشاہ نے آرڈر جاری کیا کہ بستروں کا انتظام کیا جائے۔

وزیر نے حسب عادت کچھ بستر گھر بھیج دیئے اور کچھ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کیے۔
جب پھر رات آئی تو بدستورآوازیں آنا شروع ہوگئیں۔
تو بادشاہ کو غصہ آیا اور اسی وقت وزیر کو طلب کیا کہ کیا بستروں کا انتظام نہیں کیا گیا۔
تو وزیر نے کہا کہ جناب وہ سب کچھ ہوگیا ہے تو بادشاہ نے فرمایا کہ پھر یہ شور کیوں ؟؟؟۔
تو وزیر نے اب بادشاہ کو تو مطمئین کرنا ہی تھا ۔اور اوکے رپورٹ بھی دینی تھی۔تو وہ باہر گیا کہ پتہ کرکے آتا ہوں ۔۔۔
وزیر جب واپس آیا تو مسکراہٹ لبوں پر سجائے آداب عرض کیا کہ بادشاہ سلامت یہ شور نہیں کررہے۔۔۔۔
بلکہ آپ کا شکریہ ادا کررہے ہیں۔۔۔۔

اور روزانہ کرتے رہیں گے۔۔

بادشاہ سلامت یہ سن کے بہت خوش ہوا اور وزیر کو انعام سے بھی نوازا…!!!!

اب اس کہانی کو زرا آج کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے دیکھتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں تو نظر آتا ھیے کہ حاکموں کے پاس تو وقت ہی نہیں غریبوں کا ، سفید پوشوں کا حال جان سکیں اس لیے ان کے آگے پیچھے ساۓ کی طرح خوشامدی سب اچھا کی رپورٹ پیش کر اپنی اعلیٰ کارکردگی کے امتیاز کے تمغے سمیٹتے نظر آتے ہیں ، ویسے خدا لگتی یہی ہےکہ ” تمغے بچارے کو اگر زبان مل جاۓ تو وہ اپنے امتیاز کی بے توقیری کا ایسا رونا روۓ کہ ملک خداداد میں کہیں خشکی نظر نہ آۓ ۔۔ مہنگائی ،بےروزی گاری لاقانونیت نے انسانوں کا جینا دوبھر کر دیا ھے خوشامدیوں کے اللے تللے مان نہیں جبکہ پاکستان کی اکثریت سجاد احمد لاکھا کے ایک شعر کی عکاس ھیے ۔۔ مجھ کو جس روز کسی کام کی اجرت نہ ملے ۔ بچے تھک ہار کے سو جاہیں تو گھر جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوٹلوں میں رش چاۓ پینے سے زیادہ بچوں کے سونے کا انتظار ہوتا ھے ، حال ہمارے ملک کا بھی ہے ۔ ملازمین و عوام مہنگائی سے پریشان ہیں ۔مگر یہاں رپورٹ سب اچھا کی دی جارہی ہے۔ اور اعلیٰ منصبوں پر بیٹھے جھولتی کرسیوں میں اور دھنس کر بٹیھ جاتے ۔ ارے مسند نشینوں کوئی امن نہیں ھے ھر طرف بے امنی ہے ، منگائی کا بے قابو جن سڑکوں ، بازاروں میں تھماری بے بسی کا رمبا ناچ رہا کہ آپ جن قابو کرنے میں ناکام ہیں ، خوشامدیوں سے دامن بچاہیں اور ہوش کے ناخن لیں ۔

مزید خبریں