اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) سائنسدانوں نے کچھ عرصے پہلے تصدیق کی تھی کہ زمین کی اندرونی تہہ ہمارے سیارے کی سطح کے مقابلے میں زیادہ سست روی سے گردش کر رہی ہے۔
اب سائنسدانوں نے زمین کے اندر بہت گہرائی میں چھپے ایک اور حیرت انگیز راز کا انکشاف کیا ہے۔
زمین کا اندرونی وسط ہمیشہ سے ایک راز رہا ہے اور ہمیشہ سے یہ تجسس موجود رہا ہے کہ وہاں کیا موجود ہے اور زمین کی اندرونی تہہ لوہے کے سخت گولے جیسی بنی۔
اب سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انہوں نے اس راز کو حل کرلیا ہے اور یہ معلوم کرلیا ہے کہ آخر وہاں کیا ہے اور وہ کیسے ٹھوس یا جمنے میں کامیاب ہوئی۔
یہ تو پہلے سے معلوم ہے کہ زمین کی اندرونی تہہ ٹھنڈی ہوکر آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے اور اس کے اردگرد بیرونی تہہ کا جو پگھلا ہوا مادہ ہے، وہ بھی سخت ہو رہا ہے۔
مگر یہ اب تک معمہ تھا کہ یہ عمل سب سے پہلے کیسے شروع ہوا اور وہ کون سے کیمیائی اجزا تھے جو جم کر کرسٹل بنا سکیں۔
درحقیقت اگر زمین کی اندرونی تہہ بہت تیزی یا کسی اور طریقے سے ٹھنڈی ہوتی تو آج وہ بہت بڑی ہوتی یا زمین کا مقناطیسی میدان ختم ہوچکا ہوتا۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی، لیڈر یونیورسٹی اور لندن کالج یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ زمین کی اندرونی تہہ کاربن کی بدولت جم کر ٹھوس ہونے میں کامیاب ہوئی، جس سے مقناطیسی میدان مستحکم ہوا۔
کاربن کے بغیر زمین کی اندرونی تہہ اور اوپر سطح پر موجود زندگی بہت مختلف ہوتی۔
مزید پڑھیں: جب سائنس دانوں نے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ زمین کا ’’موڈ‘‘ بدل رہا ہے!
کمپیوٹر ماڈلز کی مدد سے محققین نے دریافت کیا کہ اس اندرونی تہہ کو بننے کے لیے 3.8 فیصد کاربن کی ضرورت تھی تاکہ کرسٹل بننے کا عمل مکمل کرسکے۔
نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کاربن زمین کی اندرونی تہہ کے لیے سابقہ اندازوں سے زیادہ اہم ہے اور اسی نے اندرونی تہہ کے جمنے کے عمل میں اہم کردار ادا کیا۔
جیسے بادلوں میں پانی کی بوندیں منفی 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈی ہوکر اولے یا برف بناتی ہیں، پگھلے ہوئے لوہے کو جمنے کے لیے بہت زیادہ ٹھنڈا ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پہلے ماہرین کا خیال تھا کہ زمین کی اندرونی تہہ کے خالص لوہے کو جمانے کے لیے منفی 800 سے ایک ہزار سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہوگی۔
مگر نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ اتنے کم درجہ حرارت پر اندرونی تہہ بہت تیزی سے بڑھتی اور زمین کا مقناطیسی نظام کام کرنا چھوڑ دیتا، مگر ہمارے سیارے کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔
محققین کا ماننا ہے کہ زمین کی اندرونی تہہ کے ٹھنڈے ہونے کا عمل منفی 250 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت سے ہوا۔
تحقیق کے دوران اس عمل کو سمجھنے کے لیے سیلیکون، سلفر، آکسیجن اور کاربن جیسے عناصر کا جائزہ لیا گیا اور دیکھا گیا کہ کس طرح وہ جمنے کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ یہ تمام عناصر اندرونی تہہ میں موجود ہیں اور ان کے کیمیائی امتزاج کی بدولت ہی اندرونی تہہ کم کولنگ میں بھی سخت ہوئی۔
وہ یہ دریافت کرکے حیران رہ گئے کہ سلفر اور سلیکون جمنے کے عمل کو سست کرنے والے عناصر ہیں جکہ کاربن جمنے کے عمل کی رفتار کو بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے۔
اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کاربن زمین کی اندرونی تہہ کے لیے توقعات سے زیادہ اہم عنصر ہے اور اس کے بغیر اس کے بننے کا عمل کبھی بھی مکمل نہ ہو پاتا۔
مگر تجربات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اندرونی تہہ کے جمنے کا عمل درست کیمیائی توازن کے بغیر کبھی ممکن نہیں ہو پاتا۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئے۔
واضح رہے کہ زمین کی اوپری تہہ سیال دھات پر مبنی ہے جبکہ اندرونی تہہ ٹھوس دھاتوں پر مشتمل ہے اور اس کا حجم چاند کے 70 فیصد رقبے کے برابر ہے۔
یہ تہہ ہمارے پیروں سے 4800 کلومیٹر گہرائی میں واقع ہے۔