اسلام آباد (محمد زاہد خان) اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں افسوسناک صورتحال نے پورے شہر کو سوگوار کر دیا۔ مختلف علاقوں سے لائے گئے زخمیوں اور لاشوں کے باعث ایمرجنسی وارڈ میں رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ اب تک 11 افراد کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 21 زخمی مختلف وارڈز میں زیر علاج ہیں۔ زخمیوں میں پولیس اہلکار، وکلاء اور عام شہری شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق، پمز انتظامیہ نے فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے تمام میڈیکل اسٹاف کو طلب کر لیا ہے۔ ہسپتال کے اندر اور باہر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
جاں بحق افراد کی فہرست:
1. افتخار علی ولد سلطان محمود
2. سجاد شاہ ولد لعل چن
3. طارق ولد میر افضل
4. افتخار ولد سراج
5. سبحان الدین
6. ثقلین ولد مہدی
7. صفدر ولد منظور
8. شاہ محمد ولد محمد خلیل
9. زبیر گھمن (وکیل)
10. بداللہ ولد فتح خان
11. ایک نامعلوم شخص
زخمیوں کی تفصیل:
1. مظہر ولد روزی خان (وکیل)
2. ارشاد اے ایس آئی تھانہ رمنا
3. منتظر ولد فرحت عباس
4. اظہر ولد ظفر اقبال
5. عادل کیانی ولد طارق
6. عالم زر ولد شیر زادہ
7. یاسین ولد عبدالکریم
8. محمد عمران (ہیڈ کانسٹیبل)
9. احتشام ولد نزاکت
10. شمایلہ دختر انور حسین
11. نوید انجم ولد لیاقت
12. قیصر محمود ولد چوہدری محمد
13. مالک مسیح ولد ظہور
14. عمران جاوید (کانسٹیبل تھانہ کوہسار)
15. محمد رمضان ولد محمد اعظم (بلوچستان پولیس)
16. میر اعظم ولد غمین خان
17. حیدر خان (وکیل)
18. عمران ولد فرحان مسیح
19. کاظم ولد نوبہار
20. ایک نامعلوم شخص
21. ایک نامعلوم شخص
زخمی پولیس اہلکار:
ارشاد (اے ایس آئی تھانہ رمنا)
محمد عمران (ہیڈ کانسٹیبل)
عمران جاوید (کانسٹیبل تھانہ کوہسار)
پمز ذرائع کے مطابق متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، جنہیں فوری طور پر آپریشن تھیٹر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال میں بڑی تعداد میں شہری اور رشتہ دار موجود ہیں، جو اپنے پیاروں کی خیریت جاننے کے لیے بے تاب ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق واقعے کی نوعیت جانچنے کے لیے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے، جبکہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو اسپتال پہنچنے کے بعد ابتدائی علاج کے لیے متعدد وارڈز میں تقسیم کیا گیا، تاہم زخمیوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث طبی عملے کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
پمز کے باہر میڈیا نمائندوں، اہل خانہ اور شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ شہری حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی شفاف انکوائری کی جائے اور ذمہ داران کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔











