هفته,  18 اکتوبر 2025ء
بچے سے غیر مناسب سوالات پر خاتون رپورٹر تنقید کی زد میں، غیر ذمہ دارانہ صحافت پر سخت ردعمل

اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو نے صحافتی حلقوں اور عوامی رائے عامہ میں شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے، جس میں ایک خاتون رپورٹر کو ایک کم سن بچے سے نہایت غیر مناسب اور غیر ذمہ دارانہ سوالات کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ سوالات نہ صرف بچے کی عمر اور نفسیاتی حالت کے منافی تھے بلکہ صحافتی اقدار اور پیشہ ورانہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی بھی تھے۔

ویڈیو میں رپورٹر بچے سے گھریلو تشدد، والدین کے درمیان جھگڑوں اور طلاق جیسے نازک موضوعات پر سوالات کر رہی ہے، جو کسی بھی طور پر ایک بچے سے کرنے کے قابل نہیں تھے۔ معاشرے میں میاں بیوی کے درمیان اختلافات اور گھریلو مسائل عام ضرور ہیں، لیکن میڈیا کا یہ رویہ کہ وہ ان مسائل کو ریٹنگز کی خاطر اس انداز میں پیش کرے، نہایت افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔

بچوں کے ذہن بہت نازک اور حساس ہوتے ہیں، اور ایسے غیر سنجیدہ اور ذہنی طور پر جھنجھوڑنے والے انٹرویوز ان پر منفی نفسیاتی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ رپورٹنگ کا مقصد مسائل کو اجاگر کرنا ضرور ہے، لیکن اس کے لیے اخلاقیات، انسانی ہمدردی، اور صحافتی تربیت کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مذکورہ رپورٹر کے انداز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صحافت کے بنیادی اصولوں سے ناآشنا ہے یا پھر دانستہ طور پر سنسنی پھیلانے کے لیے بچوں کو استعمال کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹر مشتاق احمد خان پر تنقید کرنے والے گلوکار جواد احمد کو سوشل میڈیا پر شدید عوامی ردعمل کا سامنا

اس قسم کی غیر ذمہ دار رپورٹنگ نہ صرف صحافتی وقار کو مجروح کرتی ہے بلکہ بچوں جیسے معصوم اور ناتجربہ کار افراد کی ذہنی اور جذباتی صحت کو بھی داؤ پر لگا دیتی ہے۔ پیمرا، پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ، اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کو فوری طور پر اس ویڈیو کا نوٹس لینا چاہیے اور ذمہ دار افراد کے خلاف مکمل رازداری اور شفافیت کے ساتھ کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔

یہ بات نہایت تشویشناک ہے کہ کس طرح چند چینلز اور صحافی شہرت یا ریٹنگ کے چکر میں انسانی وقار، بچوں کی عزت نفس، اور بنیادی اخلاقیات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ان کا احتساب نہ صرف وقت کی اہم ضرورت ہے بلکہ یہ بچوں کے بہتر مستقبل کے تحفظ کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

ایسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ میڈیا کو اب فوری طور پر خود احتسابی، تربیت، اور اخلاقی ذمہ داریوں کی طرف لوٹنا ہوگا، ورنہ معاشرتی بگاڑ اور ذہنی صحت کے مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔ یہ صحافت نہیں بلکہ ایک خطرناک کھیل ہے، جس کی قیمت معصوم ذہنوں کو چکانی پڑتی ہے۔

مزید خبریں