راولپنڈی(روشن پاکستان نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ نے یونائیٹڈ انشورنس کمپنی (یو آئی سی)کے خلاف سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستا ن(ایس ای سی پی)کا فیصلہ معطل کر تے ہوئے اسے عبوری ریلیف فراہم کر دیا ہے۔ فیصلے کے تحت کمپنی گارنٹی بزنس دوبارہ شروع کر سکتی ہے۔ایس ای سی پی نے یو آئی سی کے خلاف یہ قدم اس الزام کی بنیاد پر اٹھایا گیا تھا کہ اس نے بارہا انشورنس گارنٹیوں کی ادائیگی سے انکار کیا۔اس کاروائی سے کمپنی کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور بھاری مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ ایس ای سی پی نے اس فیصلے کی بھرپور تشہیر بھی کی جس نے مارکیٹ میں بے چینی پھیلی اور صارفین کااعتماد متاثر ہوا۔بعد ازاں یو آئی سی نیایس ای سی پی اپیلیٹ بنچ میں اپیل دائر کی جس نے فیصلہ برقرار رکھا جس پر یو آئی سی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصلے کو چیلنج کر دیاجس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ فیصلہ ایک غیر مصدقہ شکایت کی بنیاد پر، غیر منصفانہ، غیر قانونی اور قانون کے طے شدہ طریقہ کار کے بغیر کیا گیا۔عدالت نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعدفیصلے کو معطل کر تے ہوئے کہا کہ الزام کی بنیاد پر کسی کمپنی کا اکروبار بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ ایس ای سی پی کا فیصلہ قدرتی انصاف کے اصولوں اور ملکی قانون کی خلاف ورزی ہے، اور ہدایت دی کہ ریگولیٹر مختلف بہانوں سے درخواست گزار کو ہراساں کرنے سے باز رہے۔اس پیش رفت نے ملک میں ریگولیٹری اداروں کے کردار پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ قانونی اور کارپوریٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریگولیٹرز کو اپنے اختیارات کا استعمال محتاط شفاف اور ذمہ دار انداز میں کرنا چاہیے۔ اچانک اور یکطرفہ فیصلے اور انکی تشہیر کمپنیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں،مارکیٹ کے استحکام کو متاثر اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کمزور کر دیتے ہیں۔ ایسے فیصلے مکمل جانچ پڑتال اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر کرنے سے معیشت پر بہت منفی اثرات مرتب کرتے ہیں ان سے صارفین کا اعتماد متاثر مارکیٹ میں بے یقینی اور اربوں روپے کا مالی نقصان شامل ہے۔ ایسے اقدامات بڑے پیمانے پرروزگار اور کاروباری تسلسل کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ایس ای سی پی کو ان کمپنیوں کے خلاف میڈیا ٹرائل سے گریز کرنا چاہیے جو ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہی ہیں اور قومی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔واضع رہے کہ یو آئی سی پاکستان کی ٹاپ فائیو کمپنیوں میں شامل ہے جس کی درجہ بندی ڈبل اے پلس ہے۔ یہ انشورنس انڈسٹری میں سب سے بڑا آجر اور گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کا گراس پرائمیم 13 ارب روپے ہے جبکہ اس نے 2024 میں 4.5 ارب روپے کے کلیمز ادا کیے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریگولیٹری نگرانی ضروری ہے لیکن اس کا اطلاق متوازن موزوں ہونا چاہیے۔ احتساب کے بغیر ریگولیٹری اختیارات کا استعمال کاروباری اعتماد پر منفی اثر ڈال سکتا ہے، مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو روک سکتا ہیاور پاکستان کی کمزور معیشت کو مزید دھچکا پہنچا سکتا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ ریگولیٹری اختیارات کے غیر جانبدارانہ استعمال کو روکنے میں اہم ثابت ہو گا۔ یہ مقدمہ اب ادارہ جاتی گورننس اور کاروباری حقوق کے درمیان توازن کے ایک اہم امتحان کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔
