منگل,  04 فروری 2025ء
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کا پیکا قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے حکومت کے متنازعہ اور کالے قانون پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے خلاف ملک بھر میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے اور عوام میں اس قانون کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے سینیئر صحافیوں کے روڈ شوز کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے اس حوالے سے حتمی تاریخوں کا اعلان کرنے کے لیے ایف ای سی کی منظوری حاصل کرنے کی بات کی۔ اس مشاورتی اجلاس کا انعقاد راولپنڈی / اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں کیا گیا، جس میں بڑے پیمانے پر سینیئر صحافیوں نے شرکت کی۔

اجلاس میں پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ ہم سوشل میڈیا پر مادر پدر آزادی کے مخالف ہیں، تاہم حکومت بدنیتی کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور جھوٹ بولنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے کبھی بھی بات چیت سے انکار نہیں کیا اور ہم پوری طرح بیدار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کالے قانون کو چھبیسویں آئینی ترمیم کی طرح تسلیم کر لیا جائے گا، تو یہ ان کی بھول ہے۔ ہم اس قانون کے خلاف ہر سطح پر ایسی جدوجہد کریں گے کہ حکومت کو طویل عرصے تک یاد رہے گا۔

آر آئی یو جے کے صدر طارق ورک نے اجلاس میں شرکت کرنے والے تمام افراد کا شکریہ ادا کیا اور آزادی اظہار رائے کے خلاف اٹھائے گئے ہر قدم کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پیکا جیسے کالے قانون کے خلاف چین سے نہیں بیٹھیں گے اور اس قانون کی منسوخی تک احتجاج جاری رکھیں گے۔ جنرل سیکرٹری آصف بشیر چوہدری نے کہا کہ ہم اس قانون کو عدالت میں چیلنج کر رہے ہیں اور اس کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ اس کے علاوہ، روڈ شوز کے ذریعے عوام میں اس قانون کے خلاف شعور بیدار کیا جائے گا۔

نیشنل پریس کلب کے صدر اظہر جتوئی نے کہا کہ یہ سراسر سیاہ قانون ہے اور ہم اسے کسی طور تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم آزادی اظہار کے لیے ہر سطح پر جدوجہد کریں گے۔ نیشنل پریس کلب کے سیکرٹری نیر علی نے کہا کہ حکومت روزانہ یہ بیان دے رہی ہے کہ وہ بات چیت کرنا چاہتی ہے، مگر ہم نے کبھی بات چیت سے انکار نہیں کیا۔ یہ کالا قانون ہے جسے ہم نے آغاز سے ہی مسترد کر دیا تھا اور ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق، یعنی حق خودارادیت دیا جائے۔

سینیئر صحافی محسن رضا نے کہا کہ پی ایف یو جے کی سطح پر ایک مؤثر کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو تجاویز کے ساتھ حکومت سے مذاکرات کرے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ بھی کیا جائے۔ سینیئر صحافی شکیل ترابی نے کہا کہ ہم قانون سازی کے مخالف نہیں ہیں لیکن اس قانون کے ذریعے ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکا جا رہا ہے، جو کہ ظلم و ناانصافی ہے۔

افتخار شیرازی نے کہا کہ ہم اس کالے قانون کو کسی طور قبول نہیں کرسکتے، فیک نیوز کی تعریف ہونی چاہیے اور سچ اور جھوٹ کو باریک بینی سے جانچنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بل کے حوالے سے تحریری یقین دہانی جب تک نہیں ملتی، سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ان پر بھی فیک نیوز کے الزامات عائد کیے گئے تھے، اور وہ اس کے خلاف جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ ابصا کومل نے کہا کہ فیک نیوز کوئی لفظ نہیں ہے، حکومتی بل کے ذریعے پورے سوشل میڈیا پر پابندی لگائی گئی ہے اور سچ کو چھپانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔

سینیئر صحافی عمر چیمہ نے کہا کہ حکومت اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے تمام الزامات اداروں پر ڈال رہی ہے، اور یہ منافقت کا رویہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنے پیشے کو پروفیشنل انداز میں اپنائیں اور ذاتی دشمنی سے بچیں۔

کاشف رفیق نے کہا کہ سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہوئے صحافیوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں، مگر حکومت میں آنے کے بعد ان کی رائے تبدیل ہوجاتی ہے۔ محمد مالک نے کہا کہ قانون جرم کے لیے بنتا ہے، اور ایک ہی جرم کے لیے دو قانون بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ایف یو جے ایک اتھیکس کمیٹی بنائے گی جو فیک نیوز اور منفی خبروں کا جائزہ لے گی۔ اگر کوئی صحافی صحافتی اصولوں کا خیال نہیں رکھتا تو یونین اس کا ساتھ نہیں دے گی اور اس کی رکنیت خارج کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: پیکا ایکٹ میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج

سابق سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی نے کہا کہ ماضی میں بھی صحافت کو قید کرنے اور صحافیوں کی آواز دبانے کی کوششیں کی گئی ہیں، مگر اس قانون کے منفی اثرات بہت خطرناک ہیں۔ اس قانون کے ذریعے پاکستان کے 25 کروڑ عوام کا اظہار رائے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ پی ایف یو جے نے کبھی بھی ایسے کالے قانون کو قبول نہیں کیا۔ یہ قانون نفسیاتی گیم تھا اور جب منظور ہوگیا تو اس کے بعد کہا جا رہا ہے کہ تجاویز لے آئیں۔ ہم اس بل کو مسترد کرتے ہیں اور اگر ہمیں مشاورت کرنی ہے تو ہم اپنا بل دیں گے۔

مشاورتی اجلاس میں پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ، آر آئی یو جے کے صدر طارق علی ورک، جنرل سیکرٹری آصف بشیر چوہدری، نیشنل پریس کلب کے صدر اظہر جتوئی، نیشنل پریس کلب کے سیکرٹری نیر علی، سابق جنرل سیکرٹری پی ایف یو جے ناصر زیدی اور سینیئر صحافیوں نے شرکت کی۔

مزید خبریں