اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)بجلی اورگیس کی قیمت میں مسلسل اضافے اور نے جا ٹیکسز کے خلاف شہری حکومت کے خلاف پھٹ پڑے۔
تفصیلات کے مطابق ایک سروے میں شہریوں کا کہنا ہے کہ دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہے، بجلی اورگیس کی قیمت بڑھنے سے پریشانی بھی بڑھ گئی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ہی کاروبار نہ ہونے کے برابر ہیں، بل ادا کریں یا بچوں کا رزق کمائیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ بجلی، گیس ،پیٹرول ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے، غریب آدمی کرے تو کیا کرے۔ دن بھر مزدوری کرتے ہیں، رات کو ایک وقت کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی، مزدور کی چودہ ہزار تنخواہ ہے، اس میں بل ادا کریں یا بچوں کے لیے روٹی لائیں۔
شہریوں نے موقف اختیار کیا کہ پی ڈی ایم حکومت اور اس کے بعد بننے والی نگراں حکومت غریب کو ریلیف دینے کی بجائے غریب کو مار رہی ہے،
یکم فروری کو دو بارہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا، اس کوجوازبنا کرہر ماہ بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔
بجلی اورگیس قیمت میں اورٹیکسز کے مسلسل اضافے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج بھی جاری ہیں اور سوشل میڈیا پر صارفین شدید غم وغصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
اس موقع پر ایک شہری نے کہاکہ ان کے گھرکا بل 36 ہزار روپے آیا ہے، جس میں 13 ہزار روپے ٹیکسز کی مد میں وصول کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ دو ماہ قبل بل 22 ہزار روپے آیا۔ بل کے مطابق ہم نے 547 یونٹ استعمال کیے اور ایک یونٹ کی قیمت 27 روپے تھی۔ یہ دیکھ کر میں نے اہلیہ کو کہا کہ بجلی کا استعمال بالکل محدود کر دیتے ہیں تاکہ بجلی کا بل اتنا نہ آئے۔تاہم اگلے ماہ پھر 36 ہزار روپے آیا۔ بل کے مطابق ہم نے 609 یونٹ استعمال کیے اور ایک یونٹ کی قیمت 37 روپے لگائی گئی ہے، اس کے علاوہ ٹیکسز بھی شامل ہیں۔ ہمارے گھر میں بجلی کے اتنے آلات بھی نہیں ہیں، اس کے باوجود 23 ہزار روپے بجلی کی قیمت ہے جبکہ 13 ہزار روپے ٹیکسز کی مد میں وصول کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ یہی حال گیس کا بھی ہے،گیس آتی نہیں ہے اور ہرماہ اضافی ٹیکسز کیساتھ گیس کا بل آجاتا ہے،انہوں نے کہاکہ ہم بجلی اور گیس کے بھاری بھر کم بلوں سے چکرا کر رہ گئے ہیں ۔
ہزاروں افراد بجلی اورتیس کے نرخوں میں اضافے سے تنگ ہیں۔ ملک میں معیشت کی خراب صورت حال اور آئے روز اشیا خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بجلی ووگیس کے اضافی بلوں نے شہریوں کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔
پاکستان کے مختلف شہروں کے رہائشی سوال کر رہے ہیں کہ آخر کسی گھر میں ایک بلب کا بل بھی ہزاروں روپے کی شکل میں کیوں آ رہا ہے؟
بجلی کے بلوں میں ایک دم اضافے کی اصل وجہ کیا ہے؟ کیا یہ فیصلہ سابقہ حکومت کا ہے یا پھر نگراں حکومت کا؟ اور کیا بجلی فراہم کرنے والے اداروں کے اپنے ملازمین بل ادا نہیں کر رہے یا پھر انہیں حد سے زیادہ سہولیات میسر ہیں؟