اتوار,  08  ستمبر 2024ء
لاہور میں نوجوان نے طوطے،طوطی کی پکی قبریں بنا ڈالیں!کیاایساکرناجائز ہے؟جانئے

لاہور(روشن پاکستان نیوز)لاہور میں ایک نوجوان نے اپنے مر جانے والے طوطے اور طوطی کی قبرستان میں پکی قبریں بناڈالیں!

تفصیلات کے مطابق لاہور کے ایک نوجوان نے پیا ر اور محبت کی داستانوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے پالتومرجانے والے طوطے اور طوطی کی قبرستان میں پکی قبریں بناڈالیں،تاہم انہیں ایساکرنے سوشل میڈیا کے کچھ صارفین نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ایساکام کرنے سے پہلے کسی مفتی سے رابطہ کرلیں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ ایسا کرنا جائز بھی ہے یا نہیں ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کے مطابق قرستان میں جہاں انسانوں کے لئے جگہ کم پڑرہی ہے وہاں طوطے اور طوطی کی پکی قبریں بنانا اوراس کے اوپر کتبے لگانا سمجھ سے بالاتر ہے ۔

یادرہے کہ قبر (یعنی جتنی جگہ میں میت ہے) پکی کرنے کے حوالے سے احادیث میں ممانعت آئی ہے، جس کی وجہ سے قبر پکی کرنا جائز نہیں، تاہم قبر کو محفوظ بنانے کے لیے قبر کے ارد گرد ایسی رکاوٹ لگادی جائے جس کے ذریعہ کسی جانور وغیرہ کو قبر تک رسائی ممکن نہ ہو، مثلاً قبر کے ارد گرد کانٹے رکھ دیے جائیں یا قبر کے اطراف میں اینٹوں کی باڑ لگانا اس طرح کہ میت کے جسم کے محاذ میں نیچے سے اوپر تک قبر کچی رہے، یہ جائز اور درست ہے، یعنی میت کا جسم چاروں جانب سے مٹی کے اندر رہے، اطراف کی جگہ اینٹیں لگادی جائیں تو حرج نہیں،تاکہ قبر محفوظ رہے۔

اور قبر کے سرہانے ماربل یا پتھر کاکتبہ لگاناجس پر میت کا نام تحریر ہومباح ہے، لیکن اس پر کلمہ یا قرآنی آیات لکھنا جائز نہیں ہے، اس سے کلمہ اور کلام پاک کی بے ادبی ہوتی ہے، نیز مبالغہ آمیز اشعار وغیرہ لکھنا بھی درست نہیں ہے۔ فتاوی رحیمیہ میں مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’کوئی خاص ضرورت ہو ،مثلاً: قبر کا نشان باقی رہے، قبر کی بے حرمتی اور توہین نہ ہو،لوگ اسے پامال نہ کریں ،اس ضرورت کے پیش نظر قبر پر حسبِ ضرورت نام اور تاریخ وفات لکھنے کی گنجائش ہے، ضرورت سے زائد لکھناجائز نہیں۔اور قرآنِ پاک کی آیت اور کلمہ وغیرہ تو ہرگز نہ لکھاجائے‘‘۔

خلاصہ یہ ہے کہ قبر کو (میت کی محاذات میں جتنی زمین ہے اسے) کچا رکھنا ضروری ہے، قبر پکا کرنے اور اس کی تزیین کی جدید اور قدیم صورتیں شرعاً درست نہیں ہیں، خواہ پلاسٹک وغیرہ سے قبر پکی کی جائے۔

تو جب انسانوں کی پکی قبریں بناناممانعت ہے تو جانوروں اور چرند پرند کوپکی قبریں بنانے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟

جانوروں کو جہاں تک دفنانے کا معاملہ ہے تو اس بارے میں احکامات کچھ ایسے ہیں کہ اگر جانور کو زمین میں دبانے سے مسلمانوں کو اسکے مضر اثرات سے بچایا جا سکتا ہے تو پھر اسکو زمین میں دفن کرنا جائز ہے؛ کیونکہ اس وقت مردہ جانور کو زمین میں دبانا مسلمانوں کے راستے سے رکاوٹ اور تکلیف دور کرنے کے زمرے میں شامل ہوگا۔

اور اگر مسلمانوں کو اسکی بد بو سے تکلیف ہو، اور گِھن کھائیں تو مردہ جانور کو لوگوں کے راستے سے دور کہیں پھینکنا، یا زمین میں دبانا لازمی ہوگا، چنانچہ مردہ جانور کی تدفین مسلمانوں کو مضر اثرات سے بچانے کیلئے ہوگی ، صرف اسکے مرنے کی وجہ سے نہیں ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی کو ایک بکری کا تحفہ دیا گیا، جو کہ بعد میں مر گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکے پاس سے گزرے تو فرمایا: (اچھا ہوگا کہ تم اسکا چمڑا اتار کر رنگ لو، اور اسے استعمال میں لاؤ) تو انہوں نے کہا: یہ تو مردہ ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اسے [صرف ]کھانا حرام ہے)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسکے چمڑے کو قابل استعمال بنانے کی ترغیب دی، اسے دفن کرنے کا حکم نہیں دیا۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سےجانوروں اور چوپاؤں کے متعلق پوچھا گیا کہ انہیں دفن کیا جائے، یا زمین پر کھلے عام پڑے رہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“اس بارے میں وسعت ہے؛ کیونکہ شریعت میں ایسی کوئی نص موجود نہیں ہےجو انکے دفن کرنے کے متعلق دلالت کرتی ہو، اور نہ ہی دفن کرنے سے ممانعت موجود ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ اسے دفن کر دیا جائے، تا کہ کسی کو ان سے تکلیف نہ ہو۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News