کیا عورت نومولودبچے کے کان میں اذان دے سکتی ہے؟جانئے مفتی منیب کی زبانی

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)بچے کی پیدائش کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مستحب ہے، اور اس کی من جملہ حکمتوں میں سے یہ ہے کہ کلماتِ اذان سے شیطان دور بھاگ جاتا ہے، توگویا بچہ کو شیطان کے اثر سے بچانا مقصود ہے، اور اسی طرح کلماتِ اذان و اقامت توحید خالص اور ایمانیات کے اقرار کے ساتھ ساتھ اسلام کے سب سے اہم رکن نماز کی دعوت پر مشتمل ہیں،تو بچہ کے دنیا میں آنے کے بعد اس کے پردۂ سماعت سے ان کلمات کا گزارنا دراصل اس کے دل کی گہرائیوں میں ایمان وعمل کے جذبات جاگزین کرنے میں بہت مؤثر ہے۔

اور یہ فضیلت اور حکمت ریکارڈنگ اذان سے حاصل نہیں ہوگی ، اس لیے کسی نومولود کے کان میں اذان واقامت خود دینا چاہیے یا کسی نیک شخص سے دلوانی چاہیے، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ  جب بچہ پیدا ہو تو نہلانے کے بعد بچہ کو اپنے ہاتھوں پر اٹھائیں اور قبلہ رُخ ہوکر پہلے بچے کے دائیں کان میں اذان اور پھر بائیں کان میں اقامت کہیں ۔ “حي علی الصلاة” اور “حي علی الفلاح” کہتے ہوئے دائیں بائیں چہرہ بھی پھیریں، البتہ دورانِ اذان کانوں میں انگلیاں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔

بچے کے کان میں اذان دینے کا سنت اور متوارث طریقہ یہی ہے، اور عبادات کے باب میں احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ حتی الامکان اس کی اصل شکل کو باقی رکھا جائے۔

تاہم اگر کوئی مرد موجود نہ ہو تو اس حوالے سے مفتی منیب الرحمان نے بتایاکہ عورت نوملود بچے کے کان میں اذان دے سکتی ہے۔

 

مزید خبریں