اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) سینئر صحافی حامد میر نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ آنے کے بعد حکومت کچھ ایساکرنے جارہی ہے جو کہ ٹھیک نہیں ہے،حکومت قانون کی آڑ لیکر ایسا اگر کرے گی تو بھی غلط ہے، اگر حکومت نے پیپلز پارٹی سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے تو پیپلز پارٹی کے پاس بھی یہ آپشن ہے کہ پی ٹی آئی دوسری بڑی اکثریتی جماعت کہے۔ اگر یہ تحریک عدم اعتماد پیش کرتی ہے تو ہم ان کی حمایت کریں گے چاہے وہ حکومت میں نہ ہو، لیکن وہ اسے پیش کر سکتے ہیں۔
نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو میں سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ہو گا، اصل بات یہ ہے کہ چیف جسٹس کہیں کہ ان کے فیصلے کی غلط تشریح کی گئی۔ جب ان کا فیصلہ نہیں آیا تو بہت سے لوگ ٹی وی پر بیٹھے اعلان کر رہے تھے، میں ایک نہیں دس لوگوں کے نام لے سکتا ہوں جو کہہ رہے تھے کہ جب الیکشن ہوں گے تو بیلٹ پیپر میں تحریک انصاف کا انتخابی نشان نہیں ہوگا۔ . وہ مٹھیاں لہرا کر کہتے تھے، وہ لوگ بعد میں سینیٹر بنے، ان میں سے کچھ نے الیکشن میں حصہ لیا اور جیت گئے۔
حامد میر نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا اعلان وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ طاقتور لوگوں کے قریب ہیں۔ اس میں جو ان کا فیصلہ تھا، انہوں نے تحریک انصاف سے اپنا انتخابی نشان چھین لیا، چیف الیکشن کمشنر سرفہرست ہیں، ان پر تنقید کرنا آسان ہے، چیف جسٹس خود اپنے فیصلے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ فیصلے کا ذکر کرتے رہے کہ یہ بحران اسی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کا کردار اپنی جگہ، 8 فروری کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی وجہ سے ان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے، تحریک انصاف کے انتخابی نشانات ہٹانے کی اصل ذمہ داری قاضی پر عائد ہوتی ہے۔ فیض عیسیٰ۔ وہ ضرور لکھتے رہے کہ ان کے فیصلے کی غلط تشریح کی گئی، آج کے دور میں باتیں درج ہیں، پانچ چھ لوگ ہیں جو قاضی فائزہ صاحبہ کے فیصلے کا بہت پہلے اعلان کر رہے تھے کہ تحریک انصاف کو انتخابی نشان نہیں ملے۔ ویسے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قاضی فائز عیسیٰ نے بہت بعد میں فیصلہ دیا تو اس کا اعلان بہت پہلے کیسے کر دیا گیا، یہ ایک ایسا پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
حامد میر نے کہا کہ اس فیصلے سے سیاسی استحکام کے آثار پیدا ہونے چاہئیں، لگتا ہے سیاسی استحکام نہیں آسکتا، حکومت پھر بھی کسی قسم کا رخ موڑنے کی کوشش کرے گی، اب تحریک انصاف کو اپنی مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں۔ اسے کوئی نہیں روک سکتا، اس کا اثر مرکز میں ہی نہیں پنجاب میں بھی آئے گا۔ موجودہ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ پیپلز پارٹی کو بہت سے تحفظات ہیں۔ اگر وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ جو کچھ کر چکے ہیں اسے پورا نہیں کرتے تو پیپلز پارٹی کے پاس ایک آپشن ہے کہ وہ کہہ سکے کہ تحریک انصاف کے پاس اکثریت ہے اور دوسری بڑی جماعت ہے، اگر وہ تحریک عدم اعتماد لے کر آئیں تو ہم کریں گے۔ ان کی حمایت کریں، چاہے وہ حکومت میں شامل نہ ہوں لیکن وہ اسے پیش کر سکتے ہیں۔
سینئر صحافی نے کہا کہ یہ تحریک انصاف پر منحصر ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی مدد سے شہباز شریف کی حکومت کو ہٹانے کی کوشش کرے گی۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کرتی ہے تو ایک بار پھر مجھ سمیت بہت سے لوگ کہیں گے کہ آپ کہتے تھے کہ ہم پیپلز پارٹی سے مذاکرات نہیں کریں گے تو اب کیوں کر رہے ہیں، یہ پاکستان کی سیاست ہے، جہاں عمران خان اور مولانا فضل رحمان ایک دوسرے کو بہت سی باتیں کہتے تھے لیکن آج وہ ایک دوسرے کے اتحادی ہیں، ہو سکتا ہے کل تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ہو جائے اور پاکستان کا سارا منظر نامہ بدل جائے۔