اتوار,  06 اکتوبر 2024ء
تنخواہ داروں پرٹیکسز میں ہوشربااضافہ کیوں؟روشن پاکستان نیوزحقائق سامنے لے آیا

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)حکومت پاکستان نے حالیہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ایک مرتبہ پھر ٹیکس بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں ملازمت پیشہ افراد سراپا احتجاج ہیں اور سوال اٹھا رہے ہیں کہ حکومت اُن سے ٹیکس لے کر بدلے میں کون سی سہولیات فراہم کرتی ہے؟

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ٹیکس نظام اس بنیادی اُصول پر رائج ہے کہ شہری حکومت کو اپنی آمدن سے کچھ حصہ نظام مملکت چلانے کے لیے فراہم کریں گے جس کے بدلے میں حکومت شہریوں کو صحت، تعلیم اور سکیورٹی جیسی بنیادی سہولیات اور دیگر ضروریات فراہم کرے گی۔

پاکستان میں اگرچہ تنخواہ دار طبقے پر بلاواسطہ اور بالواسطہ اور دیگر شہریوں پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ روز بروز بڑھ رہا ہے جبکہ بنیادی سہولیات اس تناسب سے فراہم نہیں کی جا رہیں۔

تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات یا تو ایک بڑے طبقے کو میسر نہیں ہیں یا پھر اتنی اچھی نہیں ہیں کہ شہری ان پر اعتماد کر سکیں اور زیادہ تر لوگ نجی سکولوں اور ہسپتالوں سے خطیر رقم کے بدلے یہ سہولیات حاصل کرتے ہیں۔

اسی طرح امن و امان کی صورت حال بھی مخدوش ہے اور پاکستانی شہریوں کو ہر وقت لُوٹ مار، قتل و غارت یا دہشت گردی کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔

اسی وجہ سے زیادہ تر شہری یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی ریاست اُنہیں ٹیکس کے بدلے میں بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

حکومت کی جانب سےتنخواہ دار طبقے پر بھاری انکم ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔

فنانس بل کے مطابق حکومت کی جانب سے سالانہ 6 لاکھ تک تنخواہ والوں کیلئے انکم ٹیکس چھوٹ برقرار رکھی گئی ہے، لیکن چھ سے 12 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر انکم ٹیکس شرح دگنی یعنی 5 فیصد کردی گئی ہے۔

سالانہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ (ماہانہ ایک لاکھ ایک روپے سے لے کر ایک لاکھ 83 ہزار 344 روپے) تک تنخواہ لینے والے سال میں 12 لاکھ سے زائد آمدن پر15 فیصد کے حساب سے ٹیکس دیں گے اور ساتھ ہی 30 ہزار روپے بھی ٹیکس میں دیں گے۔ یعنی اگر کسی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ (18 لاکھ روپے سالانہ) ہے تو وہ ماہانہ دس ہزار ٹیکس دے گا۔

سالانہ 22 لاکھ سے 32 لاکھ روپے ( ماہانہ 2 لاکھ 67 ہزار 667 روپے تک) تنخواہ والے 22 لاکھ سے اوپر کی رقم پر25 فیصد کے حساب سے ٹیکس دیں گے اور ساتھ ہی ایک لاکھ 80 ہزا روپے بھی دیں گے۔ یعنی ڈھائی لاکھ روپے کمانے والا سال میں 3 لاکھ 80 ہزار ٹیکس میں ادا کرے گا۔ ماہانہ کے حساب سے یہ رقم 30 ہزار سے اوپر ہے۔

اسی طرح 32 سے 41 لاکھ سالانہ تنخواہ پر 4 لاکھ 30 ہزار فکسڈ ٹیکس اور32 لاکھ سے اوپر کی رقم پر 30 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔

41 لاکھ سالانہ سے ایک روپیہ زیادہ ہونے پر 7 لاکھ فکسڈ ٹیکس اور 41 لاکھ روپے سے اوپر کی رقم پر اضافی تنخواہ پر 35 فیصد انکم ٹیکس ہوگا۔

حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے لیے چھ سلیب برقرار رکھے ہیں لیکن ٹیکس کی شرح میں تبدیلی کی ہے۔ اس سے پہلے 35 فیصد کی شرح ماہانہ 6 لاکھ روپے (سالانہ 72 لاکھ روپے) سے زائد لینے والوں پر لاگو ہوتی تھی۔ جب کہ اس سے نیچے کے سلیب میں 27.5 فیصد ٹیکس عائد تھا۔

نئے فنانس ایکٹ 25-2024ء کے تحت کمرشل یا رہائش کیلئے پلاٹ کی خریداری پر فائلرز کیلئے 3 فیصد ایکسائز ڈیوٹی جبکہ نان فائلر کیلئے پلاٹ کی خریداری پر 7 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی۔

5 کروڑ مالیت رکھنے والا فائلرز تاخیر سے ریٹرن فائل کرے گا تو 6 فیصد اضافی ٹیکس لگے گا، 10 کروڑ تک مالیت رکھنے والے فائلرز کیلئے تاخیر سے ریٹرن فائل کرنے پر 7 فیصد اضافی ٹیکس لگے گا۔

فنانس بل کے تحت تنخواہ دار طبقے پر اضافی ٹیکسوں پر عملدرآمد کا بھی آغاز ہو گیا ہے، ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر انکم ٹیکس بڑھا کر 5 فیصد کر دیا گیا، ٹیکس سالانہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ آمدن پر وصول کیا جائے گا۔

تنخواہ دار طبقے کو ماہانہ 1250 روپے کے بجائے 2500 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا، سالانہ 12 لاکھ روپے سے 22 لاکھ آمدن پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد ہو گی، اس طبقے کو 30 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس بھی دینا ہو گا۔

ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ حکومت نے آئی ایم کو خوش کرنے کیلئے تنخواہ داروں کا جنازہ نکال دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہی حالات رہے تو قابل افراد ہجرت پر مجبور ہو جائینگے۔

اسکے مقابلے میں کل ہی پٹرول پمپس والوں نے ہڑتال کر کے حکومت کو ٹیکسز واپس لینے پر مجبور کر دیا۔

اس سے قبل دوکانداروں نے بھی ٹیکس دینے سے انکار کر کے حکومت کی دوڑیں لگوا دی تھی۔

پڑھے لکھے تنخواہ دار طبقے کی آمدن کا پینتیس فیصد تک ٹیکس میں کٹ رہا ہے۔

لوگ ملک چھوڑ کر جانے کو بیتاب ہیں۔ حکومت نے ٹیکس کی سلیبز کو افراطِ زر کے حساب سے تبدیل نہیں کیا۔
متوسط طبقہ بری طرح پِس چکا ہے۔

سینئر نیوزاینکر میزبان ماریہ میمن نے تنخوادارطبقے پر ٹیکس کے بارے میں وجہ بتاتے ہوئے کہاکہ دُکھ اس وقت ہوتا ہے جب اپنے اللے تللوں کیلئے خزانے سے رقم بڑی بڑی رقوم نکالی جاتی ہیں، گزشتہ دنوں وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ جیسے ہی آمدنی کے ذرائع پیدا ہوں گے تو تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کیا جائے گا۔

اس پر ماریہ میمن نے کہا کہ اگر آمدنی کے ذرائع نہیں ہیں تو پنجاب میں سرکاری افسران کو جو لگژری گاڑیاں دینے کے بعد اب لگژری گھر دینے کی تیاری کی جارہی ہے اس منصوبے پر دوارب روپے لاگت آئے گی یہ کہاں سے آئیں گے؟

ان کا کہنا تھا کہ اگر ذرائع آمدنی نہیں ہے تو لاہور کے کمشنر ہاؤس کی مرمت اور تزئین و آرائش کیلئے 29 کروڑ روپیہ لگایا جارہا ہے تو یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ اس کے علاوہ وزیر اعظم ہاؤس کا گارڈن جس میں 60 مالی کام کرتے ہیں جس کیلئے بجٹ میں 3.6 کروڑ روپیہ رکھا گیا ہے۔

ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ ایوان صدر کے ملازمین کیلئے بھی ذرائع آمدنی بہت زیادہ ہے اسی لیے اس کے 41 کروڑ روپے سے زائد اخراجات ہیں، اگر ذرائع آمدنی نہیں ہے تو صرف تنخواہ دار طبقے کیلئے نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بقول وزیر خزانہ کہ ’’وزراء تو تنخواہیں بھی نہیں لے رہے اور اپنے گھروں کے بلز بھی خود ہی ادا کرتے ہیں‘‘۔ تو پھر (اسپیشل اسسٹنٹس آف پرائم منسٹر)’ایس اے پی ایمز‘ 40 کروڑ روپے میں کیوں پڑ رہے ہیں؟

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو درست سمت میں لانے کے لیے ٹیکس نظام کی اوورہالنگ اور اس کو منصفانہ بنیادوں پر ترتیب دے کر اشرافیہ اور عام افراد میں برقرار فرق کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔

اس وقت آئی ایم ایف بھی اصلاحات سے زیادہ صرف پیسے اکٹھے کرنے پر زور دے رہا ہے اور حکومت اشرافیہ کو بچانے اور عوام پر لگائے گئے ٹیکس کا جواز فراہم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا نام استعمال کر رہی ہے۔

تاہم ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کے ساتھ حکومتی اخراجات میں کمی بھی ناگزیر ہے۔

اس کا واحد حل حکومت اور دفاعی اخراجات میں کمی ہے جو کہ بہت زیادہ ہیں۔

مزید خبریں