هفته,  23 نومبر 2024ء
سائفر کیس: اعظم خان کے لاپتہ ہونے پر درج مقدمہ کی رپورٹ طلب

اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر اعظم خان کے لاپتہ ہونے پر درج مقدمہ سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے اپنی ذمہ داری کے برخلاف سائفر دستاویز اپنے پاس رکھی۔ سابق وزیراعظم نے سائفر دستاویز واپس کرنے کی ڈائریکشن پر عملدرآمد نہیں کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں کورٹ کو سائفر دستاویز کی موومنٹ سے متعلق بتاتا ہوں جس پر جسٹس گل حسن کا کہنا تھا کہ سائفر موومنٹ سے متعلق جو کچھ آپ بتا رہے ہیں وہ ہمیں لکھنا پڑ رہا ہے، آپ لیپ ٹاپ سے پڑھ رہے ہیں لیکن ہمیں لکھنا پڑ رہا ہیں، آپ یہ چیزیں تحریری طور پر دے دیں، ہم سے لکھنے میں کچھ رہ نہ جائے۔
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ یہ تمام چیزیں میں پہلے عدالت میں بیان کر بھی چکا ہوں جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اب ہمیں یہ بتائیں کہ سائفر دستاویز اعظم خان تک کیسے پہنچی؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ جو بتا رہے ہیں وہ پہلے بتالیں تاکہ ربط نہ ٹوٹ جائے جس کے بعد پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعظم خان نے اعتراف کیا کہ اُن کے اسٹاف نے انہیں وزیراعظم کی کاپی دی۔ اعظم خان کے مطابق وزیراعظم نے سائفر کاپی اپنے پاس رکھ لی اور واپس نہیں کی۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے مختلف گواہوں کے بیانات پڑھ کر سنائے اور کہا کہ اعظم خان نے بیان دیا “بانی پی ٹی آئی نے جب سائفر کاپی پڑھی تو پرجوش ہوگئے۔” اعظم خان کے مطابق وزیراعظم نے سائفر کاپی پڑھنے کیلئے اپنے پاس رکھ لی۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ کچھ دن بعد واپس مانگنے پر وزیراعظم نے کہا کہ سائفر کاپی گم ہوگئی، وزیراعظم نے کہا انہوں نے اسٹاف اور ملٹری سیکریٹری کو سائفر ڈھونڈنے کا کہا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سائفر کاپی اعظم خان تک آگئی تو وزیراعظم کو بھی دی گئی ہوگی، بانی پی ٹی آئی نے کبھی سائفر کاپی وصول کرنے سے انکار نہیں کیا، اعظم خان تک سائفر کاپی پہنچنے کی ڈاک کی تفصیلات تو لازمی موجود ہوں گی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سائفر کاپی اعظم خان سے وزیراعظم کو جانے کے بھی کوئی شہادت موجود ہے؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سارا کچھ موجود ہے، اِن اور آؤٹ کے رجسٹر موجود ہیں۔جسٹس گل حسن نے کہا کہ سائفر دستاویز وزیراعظم آفس تک جانے پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سائفر اعظم خان سے وزیر اعظم کو کس طرح پہنچا اس متعلق بتادیں، اعظم خان نے سائفر دستاویز وزیراعظم کو دی ہوگی۔ اگر دستاویز دی گئی ہے تو ہی ڈی مارش کا فیصلہ کیا گیا، وزیراعظم کے سیکرٹری نے تو ڈی مارش کا فیصلہ نہیں کیا ہوگا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ وزیراعظم نے سائفر واپس نہیں کیا ہوگا؟
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ سائفر اعظم خان سے وزیراعظم کو جانے کی واحد گواہی اعظم خان کا بیان ہے، بانی پی ٹی آئی کے وکیل تو اعظم خان کے بیان پر ہی اعتراض کر رہے ہیں۔ اعظم خان کے نام نہاد اغوا پر جو مقدمہ درج ہوا تھا اس پر کیا ہوا؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد یا ان کے آفس سے کوئی عدالت میں موجود ہے؟

اس پر اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ مجھے علم نہیں، چیک کر کے عدالت کو بتاؤں گا جس پر جسٹس گل حسن نے کہا کہ صرف چیک نہ کریں آئندہ سماعت پر تمام مصدقہ کاپیز کیساتھ رپورٹ پیش کریں۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جو رپورٹ پیش کریں گے اس پر ایڈوکیٹ جنرل کے دستخط ہوں گے، عدالت کو بتائیں کہ مقدمہ میں چالان ہوا یا ڈسچارج کردیا گیا۔ اگر مقدمہ زیر التوا ہے تو اس کی بھی تفصیل عدالت میں پیش کریں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ڈسچارج ہوا یا چالان پیش ہوا ہے یا کیا ہوا؟ مکمل رپورٹ دیں، جو رپورٹ بھی دیں اس پر ایڈوکیٹ جنرل کے دستخط ہونے چاہیے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت 2 مئی تک ملتوی کردی۔

مزید خبریں