پیر,  21 اپریل 2025ء
جرمنی میں پاکستانی شہری قتل، میت آج کراچی پہنچے گی

کراچی(روشن پاکستان نیوز) میں ذہنی مریض نے گھر میں گھس کر پاکستانی فیملی پر چاقو سے حملہ کردیا۔ جس سے اٹھاون سالہ فہیم الدین جاں بحق ہوگئے جبکہ اہلیہ اور بیٹی شدید زخمی ہوئیں۔

واقعہ جرمنی کی ریاست بادن ورٹمبرگ کے شہر اولم میں پیش آیا۔

مقتول فہیم الدین کی دو بیٹیاں گھر میں چھپ جانےکی وجہ سے محفوظ رہیں۔

مزیدپڑھیں:آج کے دن سابق وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کا مقد مہ پیش کیا

پولیس کی بروقت کارروائی کے دوران فائرنگ سے حملہ آور مارا گیا۔

فہیم الدین کی میت آج رات کراچی پہنچائی جائے گی، جبکہ کہ مقامی قبرستان میں انہیں سپرد خاک کیا جائے گا۔

دوسری جانب واقعے کے بعد ایک مرتبہ پھر جرمنی میں ااسلاموفوبیامیں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

جرمنی کے 55 لاکھ مسلمانوں کے خلاف نفرت، نسل پرستی اور امتیازی سلوک میں شدت آرہی ہے ۔

جرمن معاشرے کے ایک بڑے حصے میں مسلمان مخالف رویہ پایا جاتا ہے۔ اس کے مظاہر روز مرہ کی زندگی میں دکھائی دیتے ہیں۔

جرمن معاشرے میں مسلمانوں کو (غیر مسلموں کی طرف سے)سماجی انضمام کی صلاحیت سے محروم سمجھا جاتا ہے اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ان میں شعوری طور پر فاصلہ اختیار کرنے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رابطے نہ رکھنے کا رجحان ہے۔

حجاب پہننے والی مسلم خواتین بتاتی ہیں کہ وہ اکثر عوامی سطح پر دشمنی کا نشانہ بنتی ہیں۔ مسلمان مردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تعصب پایا جاتا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تشدد، انتہا پسندی اور پدرشاہی اقدار سے لگا رکھتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں تقوی کو بنیاد پرستی کے ساتھ جوڑا جانا خاص طور پر پریشان کن ہے۔

جرمنی میں مسلمانوں کے لیے مذہبی آزادی کے بنیادی حق پر پابندیوں کی وکالت بھی پائی جاتی ہے اور انہیں معاشرے میں مساوی شرکت کے حق سے محروم کرنے پر بھی آمادگی موجود ہے۔

بنڈس ٹاگ یعنی وفاقی جرمن پارلیمان میں انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی)کا واضح طور پر مسلم مخالف پروگرام ہے۔

کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو)اور ریاست باویریا کی علاقائی جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو)کی قیادت میں دائیں بازو کے مرکزی بلاک میں بھی مسلمانوں کے خلاف پوشیدہ دشمنی کا رجحان ہے جو ان کی جانب سے اسلام کو جرمن قوم اور ثقافت کا حصہ قرار دینے میں غیر واضح موقف میں بھی دکھائی دیتی ہے۔

برسراقتدار بائیں بازو کی جماعت سوشل ڈیموکریٹس(ایس پی ڈی) گرین پارٹی اور نیو لبرل فری ڈیموکریٹس (ایف ڈی پی)بھی ادارہ جاتی نسل پرستی کا تدارک کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ صرف بائیں بازو کی پارٹی ڈی لنکے ہی ایک قابل ذکر استثنی ہے۔

مزید خبریں