هفته,  09 نومبر 2024ء
کوئی تو سوچو کوئی تو روکو،ہمارے معاشرے میں غیرت کیلئےبیٹیوں اور بہنوں کا قتل، آخرکب تک؟

اسلام آباد (حفصہ یاسمین) کراچی میں باپ نے غیرت کے نام پر بیٹی سمیت 2 افراد کو قتل کردیا۔

صوبہ سندھ کی پولیس کے مطابق کراچی میں ایک شخص نے مبینہ طور پر غیرت کے نام پر اپنی بیٹی سمیت 2 افراد کو قتل کردیا۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ کے ایک قصبے میں غیرت کے نام پر ایک شخص نے اپنی بیٹی، اس کے شوہر اور کمسن بچوں سمیت چھ افراد کو گولی مار کر قتل کر دیا۔

باجوڑ ،غیرت کے نام پردو خواتین سمیت چار افراد جاں بحق اور ایک زخمی

شیخوپورہ میں بھائی کے ہاتھوں دو بہنیں قتل

لاہور: پولیس اہلکار نےغیرت کے نام پر بھانجی کو قتل کر دیا

باپ نے اکلوتی بیٹی کو پسند کی شادی کرنے کے لیے غیرت کے نام پر زہر دے دیا۔”

20 سالہ نوجوان کو اس کے بڑے بھائیوں نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔

غیر مرد سے باتیں کرتے دیکھ کر بھائی کا غرور جاگ اٹھا اور اس نے بہن کو قتل کر دیا۔ “

یہ تحریر لکھنے کا مقصد بھی گزشتہ دنوں ہونے والا ایک واقعہ ہے جہاں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھائی نے بہن کا گلا دبا کرمار ڈالا تھا اور رشتے دارپاس کھڑا سکون سے ویڈیو بناتا رہا۔منظرعام پرآنے والی ویڈیو میں انکا باپ اور ایک عورت بھی موجود ہے جو سکون سے قتل کا منظر دیکھتے رہےہیں ، قتل کرنے کے بعد لڑکی کی خاموشی سے تدفین بھی کر دی۔
ایسے واقعات پر جہاں دل خون کے آنسو روتا ہے وہیں خون کھول بھی اٹھتا ہے ،
آئے روزیہ تمام ایسے الفاظ اور خبریں جنہیں آج ہم ٹی وی لگائیں، اخبارات دیکھیں یا سوشل میڈیا کہیں نہ کہیں سے ایسی کوئی نہ کوئی خبر ہمارے سامنے آ ہی جاتی ہے ۔
یہ ہمارے 21 ویں صدی کےچندتلخ حقائق ہیں۔شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے، جب ہم غیرت کے نام پر قتل کی کوئی خبر ٹیلی وژن یا اخبارات پر نہ سنتے اور دیکھتے ہوں اور اب تو ہم اسقدربے حِس ہیں کہ عزّت، غیرت ، شرم، حمیّت کے نام پر ہونے والی اس درندگی، غیر انسانی رویّوںسے ہمارے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی ۔ ہمارے ہاں لفظ، غیرت کی جتنی غلط تشریح کی جاتی اور اسے ڈھال بنا کر جتنا انتشار پھیلایا جاتاہے، اگر غیرت لفظ نہیں،انسان ہوتی، تو شاید غیرت اور شرم ہی سے ڈوب مرتی۔جانتے ہیں مِن حیث القوم ہمارے لیےافسوس ناک امر کیا ہے،اگر گوگل پر لفظ ’’غیرت‘‘ سرچ کیا جائے، تو اسکے معانی کی جگہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعات سامنے آجا تے ہیں۔ ہوش سنبھالنے سے اب تک یہی سُنتے اور دیکھتے آئے کہ کبھی غیرت کے نام پر بھائی ، بہن کو، تو کبھی شوہر بیوی کو، بھائی ، بھائی کو،باپ، بیٹی کو ، دیور ، بھابھی کو، چچا ،بھتیجی کو تو ماموں نے بھانجی کو قتل کر دیا۔ آخر یہ کیاہے اور ظلم و جبر کا یہ دھندہ کب تک چلے گا ؟

پاکستان کی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی تحقیق کے مطابق سنہ 2015 میں ملک میں 1096 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ 2014 میں غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کی تعداد 1005 تھی۔ اس سے ایک سال پہلے یعنی 2013 میں قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 869 تھی۔ جبکہ آج کے دور میں یہ تعداد ضرب کھا چکی ہے

افسوس تو یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کی تمام وہ ذہنی بیماریاں آج پھر سے ہم میں جنم لے چکی ہیں ، اسوقت ننھی بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اور آج پال پوس کر صرف ایک لفظ غیرت کے نام پر باپ بھائی یا دیگر بیٹی یا بہن کو یوں قتل کر دیتے ہیں جیسا کہ یہ کوئی بات ہی نہ ہو

ہم مسلمان ہی اکثر بیٹی کی پیدائش کو اچھا نہیں سمجھتے، اُس سے تنگ دل ہوتے ہیں، بوجھ سمجھتے ہیں، اور اُس کو انتہائی حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، حالانکہ اکثر و بیشتر مشاہدہ میں آتا رہتا ہے کہ بیٹوں کی بہ نسبت بیٹیاں ماں باپ کی خدمت زیادہ کرتی ہیں، اُن کی اطاعت و فرماں برداری میں بیٹوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں، اُن کے مر جانے کے بعد اُن کیلئے پڑھ پڑھ کر اور اُن کی طرف سے صدقہ و خیرات کر کے بیٹوں کے مقابلے میں اُن کو زیادہ ثواب پہنچاتی ہیں، تو پھر بیٹیوں کی پیدائش سے ہم کیوں پریشان ہوں، اُن کے وجود کو ہم کیوں بوجھل سمجھیں اور اُن کی تعلیم و تربیت اور اُن کی پرورش سے ہم کیوں تہی دامنی کا ثبوت دیں؟ کیوں ذرا سی بات پر انکو قتل کردیا جائے

لیکن معاشرے میں اچھائی اور برائی ددونوں پائے جاتے ہیں ۔ آج بہت سے ایسے گھرانے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں بیٹی کو بیٹوں سے زیادہ عزت اور محبت ملتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ایک مچھلی سارے جل کو گندہ کر دیتی ہے ،

تو اللہ تعالی رحم کرے گا تو جہاں یہ واقعات پیش آ رہے ہیں وہیں معاشرہ بہتری کی طرف بھی جا رہا ہے ۔بس مایوس نہیں ہوں نام انشاءاللہ العزیز اچھائی آئے گی بہتری آئے گی۔ لیکن اگر قانون کی حکمرانی ہو تو یہ ظلم ختم ہو سکتے ہیں، جب تک ریاست اپنی رٹ قائم نہیں کرے گی جبکہ تک ایسے عناصر پر قانون کی گرفت مظبوط نہیں ہو گی یہ سلسلہ نہیں تھمے گا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی سزائیں نافذ کرنی چاہئے تاکہ یہ جرائم پیشہ لوگ دوبارہ کوئی جرم نا کریں ‘ایسے افراد کو جب تک عبرت کا نشان نہیں بنایا جائے گا صورتحال بدلنے والی نہیں ہے ایسے میں چور کے جب تک ہاتھ نہیں کاٹیں جائیں گے تب تک جرائم پیشہ عناصر سبق حاصل نہیں کریں گے کہ اب چوری کی تو ہاتھوں سے جاوں گا۔

بالکل ایسے ہی بری سوسائٹی کے شکار لوگوں کے لیے بھی سزائیں ہوں تاکہ ان کو پتہ چلے کے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ رہیں ہیں کسی غیر اسلامی ملک میں نہیں ہمیں اسلامی قوانین کے تحت زندگیاں گزارنی چاہیے ایسے میں اسلامی قوانین پر عملدرآمد شروع ہو جائے تو آئندہ لوگ غلط سوچنے کی بھی کوشش نہیں کریں گے ۔

مزید خبریں