اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نے آج اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے احاطے میں “انٹرنیشنل ویک آف دی ڈس اپیئرڈ” کی مناسبت سے ایک بامقصد شجر کاری تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب کا مقصد جبری گمشدگیوں کے متاثرین کو خراجِ عقیدت پیش کرنا اور انسانی حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔
ڈی ایچ آر کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
“انکار اور خاموشی کے اس ماحول میں، ہم یہ درخت ان افراد کی یاد میں لگا رہے ہیں جو جبری طور پر گمشدہ ہیں۔ ہر درخت ایک کہانی ہے — مزاحمت، یاد اور امید کی۔”
تقریب میں ملک کی نمایاں سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی، جن میں شامل تھے:
-
سینیٹر افنان اللہ (مسلم لیگ ن)
-
اظہر جتوئی خان (صدر نیشنل پریس کلب)
-
فرحت اللہ بابر (سابق سینیٹر و انسانی حقوق کے علمبردار)
-
افراسیاب خٹک (سابق سینیٹر و انسانی حقوق کے علمبردار)
-
شیریں مزاری (سابق رکن قومی اسمبلی)
-
طاہرہ عبداللہ (سماجی کارکن)
-
میاں محمد اسلم (نائب امیر جماعت اسلامی)
-
سینیٹر مشتاق احمد (سابق سینیٹر)
-
آمنہ مسعود جنجوعہ (چیئرپرسن DHR)
-
کامران منہاس (سیکرٹری DHR)
تقریب میں شریک تمام مقررین نے متفقہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مظلوم خاندانوں کو انصاف دلائے جو برسوں سے اپنے پیاروں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
ڈی ایچ آر کے مطابق، تنظیم نے اب تک 3,122 جبری گمشدگیوں کے کیسز درج کیے ہیں جن میں سے 1,377 کیسز تاحال حل طلب ہیں۔ سرکاری کمیشن کے مطابق، گیارہ ہزار سے زائد کیسز درج ہو چکے ہیں، لیکن عمل درآمد اور شفافیت کا فقدان تاحال برقرار ہے۔
ڈی ایچ آر کے مطالبات:
-
تمام جبری طور پر لاپتہ افراد کی فوری بازیابی
-
سچائی کو منظر عام پر لایا جائے
-
متاثرہ خاندانوں کو مکمل بحالی اور مالی ازالہ دیا جائے
-
جبری گمشدگی کو ایک ناقابلِ معافی جرم قرار دیا جائے
یہ شجر کاری مہم محض درخت لگانے کی تقریب نہیں تھی، بلکہ ایک خاموش لیکن مضبوط احتجاج اور انسانیت کے حق میں اجتماعی عزم کا اظہار تھی۔