اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کے حالیہ فیصلے نے پورے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ فیصلہ سترہ صفحات پر مشتمل ہے جس میں عدالت نے قرار دیا کہ عورت کی مرضی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی، ازدواجی زندگی میں نفسیاتی اذیت جسمانی تشدد جتنی سنگین ہے، اور شوہر کی اجازت کے بغیر دوسری شادی تنسیخِ نکاح کی جائز بنیاد ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ظلم صرف جسمانی نقصان تک محدود نہیں بلکہ ایسا رویہ جو عورت کو ذہنی یا جذباتی اذیت دے اور اس کے لیے گھر میں باعزت زندگی گزارنا ناممکن بنا دے، وہ بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔
فیصلے کے بعد سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں شدید ردِعمل سامنے آیا۔ بیشتر صارفین نے اس فیصلے کو ’’غیر منصفانہ‘‘ اور ’’خاندانی نظام کے لیے خطرناک‘‘ قرار دیا۔ شہری رئیس احمد نے کہا کہ یہ فیصلہ قرآن و سنت سے ہٹ کر دیا گیا ہے، جس سے نافرمان عورتوں کو مزید حوصلہ ملے گا کہ وہ خلع لیں، مالی حقوق حاصل کریں اور شوہر کی نافرمانی جاری رکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عورت جھوٹے مقدمات کے ذریعے شوہر کو بچوں سے جدا کرے، اس کی زندگی اور عزت تباہ کرے تو کیا یہ ظلم نہیں؟ ان کے مطابق عدالتیں مردوں کے خلاف جانبداری دکھا رہی ہیں اور ایسے فیصلے عدل نہیں بلکہ خاندانی نظام کے قتل کے مترادف ہیں۔
عمران حمید نے لکھا کہ کلہاڑی کے وار سے زیادہ خطرناک زخم وہ نفسیاتی زخم ہوتا ہے جو انسان کو اندر سے ختم کر دیتا ہے، مگر عدالتیں صرف عورت کے احساسات کو تسلیم کرتی ہیں۔ شاہد منظور الحسین نے کہا کہ میاں بیوی کا رشتہ محبت، اعتماد اور قربانی سے چلتا ہے، اسے قانون یا عدالتی فیصلوں کے ذریعے ریگولیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق اگر ضد اور ہٹ دھرمی غالب آ جائے تو کوئی رشتہ ایک دن بھی نہیں چل سکتا۔
مہ صدیق نے اپنے ردِعمل میں کہا کہ عدالتیں صرف عورت کو حقوق دینے پر لگی ہیں، بچوں کے حقوق کوئی نہیں دیکھتا۔ ان کے مطابق خلع اور طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان نے معاشرتی ڈھانچے کو کمزور کر دیا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ شادی کے پہلے سال میں جوڑے کو بچے پیدا نہیں کرنے چاہئیں، تاکہ اگر اختلافات ہوں تو معصوم بچوں کو والدین کی جدائی کا دکھ نہ سہنا پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں خلع یا طلاق سے قبل مکمل تحقیق کریں، گواہوں کو سنیں اور صلح کی کوشش کریں، تاکہ بچے نفسیاتی مریض نہ بنیں۔
مزید پڑھیں: انصاف تک رسائی مزید آسان ، سپریم کورٹ نے عوامی پورٹل کا آغاز کر دیا
دوسری جانب کچھ حلقے اس فیصلے کو خواتین کے تحفظ کی سمت ایک مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق عدالت نے ظلم کی تعریف کو وسعت دے کر ان خواتین کے لیے قانونی راہ ہموار کی ہے جو گھروں میں نفسیاتی یا جذباتی اذیت کا شکار ہوتی ہیں لیکن جسمانی تشدد کے ثبوت نہ ہونے کے باعث انصاف حاصل نہیں کر پاتیں۔ فیصلے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کنونشنز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ظالمانہ یا تحقیر آمیز سلوک کو بھی ظلم کے زمرے میں شمار کیا جانا چاہیے۔
اگرچہ عدالت کا مقصد ازدواجی ظلم کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے، لیکن اس فیصلے نے معاشرے میں مردوں کے حقوق اور عدلیہ کے توازن پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر خلع کے معاملات میں صرف عورت کے بیانیے کو تسلیم کیا گیا تو مردوں کے ساتھ انصاف ممکن نہیں رہے گا۔
فیصلے کے قانونی اور سماجی اثرات آنے والے دنوں میں مزید واضح ہوں گے، تاہم ایک بات طے ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان میں ازدواجی قوانین کے دائرہ کار کو نئی سمت دے گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ قرآن و سنت، معاشرتی اقدار اور انسانی حقوق کے درمیان ایک متوازن راستہ اختیار کر پائے گی یا خاندانی نظام مزید انتشار کا شکار ہوگا۔











