منگل,  04 نومبر 2025ء
اسلام آباد کے سیکٹر E-11 میں غیر اخلاقی لباس پہننے والے فرد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) اسلام آباد کے علاقے سیکٹر E-11 سے متعلق ایک ویڈیو ان دنوں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہاں ایک فرد غیر اخلاقی لباس پہن کر سڑک پر گھوم رہا ہے اور جسمانی نمائش کر رہا ہے۔ کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ ویڈیو میں دکھائی دینے والا شخص خواجہ سرا ہے۔ تاہم اس ویڈیو کی تصدیق یا اس حوالے سے کسی قانونی کارروائی کی کوئی سرکاری اطلاع ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ اس واقعے نے معاشرتی اقدار، قانون کے نفاذ اور اخلاقی حدود کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

متعدد سوشل میڈیا صارفین نے اس ویڈیو پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ واقعہ اسلامی معاشرے کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتا اور اخلاقی زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ “E-11 میں جسم فروشی عام ہے، میں اکثر وہاں سڑک کے بیچ میں عجیب لباس پہنے لوگوں کو دیکھتا تھا۔” ایک اور صارف نے کہا، “جب میں نے بتایا کہ میں E-11 میں رہتا ہوں تو کسی نے فوراً کہا کہ وہاں تو سب جسم فروشی والے رہتے ہیں۔” اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس علاقے کے بارے میں پہلے سے منفی تاثر موجود ہے اور یہ ویڈیو اس تاثر کو مزید بڑھا رہی ہے۔

تاہم دوسری جانب کچھ لوگوں نے اس ردِ عمل کو مبالغہ آمیز قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ E-11 ایک عام رہائشی علاقہ ہے جہاں مختلف طبقوں کے لوگ رہتے ہیں، اس کو بدنام کرنا درست نہیں۔ ایک رہائشی نے لکھا کہ وہ آٹھ سال سے اس علاقے میں رہ رہا ہے اور یہ اس کا پسندیدہ سیکٹر ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ معاملہ یک طرفہ نہیں اور سوشل میڈیا پر چلنے والی بحث میں حقیقت اور افواہ دونوں شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ٹریفک پولیس کا ناکوں پر لرنر پرمٹ بنا کر دینے کا اعلان

پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ملک ہے جس کے آئین اور قانون میں اسلامی اخلاقیات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ایسے واقعات جہاں عوامی مقامات پر لباس یا رویے کے حوالے سے حدود سے تجاوز دکھائی دے، وہ معاشرتی اور قانونی دونوں سطحوں پر تشویش کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر ویڈیو میں دکھایا گیا واقعہ درست ثابت ہوتا ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کی تحقیقات کرنی چاہیے اور ضرورت پڑنے پر کارروائی بھی کرنی چاہیے۔ تاہم یہ عمل محض عوامی دباؤ یا جذباتی ردِ عمل کی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ انسانی حقوق اور آئینی اصولوں کا احترام برقرار رہے۔

چونکہ ویڈیو کی مکمل تصدیق نہیں ہو سکی، اس لیے کسی فرد کو محض سوشل میڈیا پر چلنے والی معلومات کی بنیاد پر الزام دینا غیر منصفانہ ہوگا۔ اس طرح کے واقعات ہمارے معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں جہاں لباس، آزادیِ اظہار اور اخلاقیات جیسے موضوعات پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اس ویڈیو کے باعث خواجہ سرا یا دیگر صنفی اقلیتوں کے خلاف تعصب یا نفرت میں اضافہ ہو جائے، جو انسانی حقوق کے اصولوں کے خلاف ہے۔

انتظامیہ اور عوام دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرتی اقدار اور شہری آزادیوں کے درمیان توازن قائم رکھیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ ویڈیو کی تحقیقات کریں اور معلوم کریں کہ آیا یہ واقعہ واقعی E-11 میں پیش آیا یا نہیں۔ مقامی کمیونٹی اور انتظامیہ کو بھی سکیورٹی اور سماجی نظم و ضبط پر نظر رکھنی چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے۔ اس کے ساتھ ہی معاشرتی شعور میں اضافے کے لیے مذہبی و سماجی رہنماؤں کی شمولیت سے ایسے مکالمے کیے جائیں جن میں عوامی اخلاقیات، شہری آزادیوں اور ذمہ دارانہ طرزِ عمل پر بات کی جائے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ سنسنی خیزی کے بجائے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کریں اور کسی کے لباس یا صنفی شناخت کی بنیاد پر منفی تاثر پھیلانے سے گریز کریں۔

مزید خبریں