جمعرات,  23 اکتوبر 2025ء
آزاد کشمیر میں سیاسی بدعنوانی کی خوفناک داستان

تحریر: ڈاکٹر یاسین رحمان

گزشتہ دو دنوں سے آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) کے وزیرِاعظم چوہدری انوارالحق کا ایک انٹرویو، جو ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر ہوا، سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

اس انٹرویو میں وزیرِاعظم نے سابق وزیرِاعظم سردار تنویر الیاس، جو ایک معروف بزنس ٹائیکون ہیں، کی حکومت کے متعلق کئی حیران کن انکشافات کیے۔ انوارالحق کے مطابق، تنویر الیاس کے دورِ حکومت میں سرکاری خزانے سے تقریباً 64 کروڑ روپے نقد رقم نکالی گئی، جبکہ ایک سالہ بجٹ کے دوران 7 ارب روپے کی سنگین بے ضابطگیوں کا شبہ ظاہر کیا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وزیرِاعظم کے سیکرٹ فنڈ کی حد، جو پہلے دو کروڑ روپے تھی، اسے غیر معمولی طور پر بڑھا کر 64 کروڑ روپے کر دیا گیا، اور یہ تمام رقم نقدی کی صورت میں جاری کی گئی۔

ذرائع کے مطابق، اس معاملے کی ایک باضابطہ انکوائری ایک ایڈیشنل سیکرٹری نے کی، جس دوران وزیرِاعظم سیکرٹریٹ کے اکاؤنٹنٹ اور ڈپٹی اکاؤنٹنٹ سمیت جاوید جَرال سے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔

جاوید جرال کے مبینہ بیان کے مطابق، یہ رقم براہِ راست اُس وقت کے وزیرِاعظم کی اسلام آباد رہائش گاہ پر پہنچائی گئی۔ انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ رقم چار مختلف چیکوں کے ذریعے قسطوں میں نکالی گئی اور نقدی کی شکل میں بیگز میں بھر کر اسلام آباد منتقل کی گئی۔ تفتیش مکمل ہونے کے بعد جاوید جرال کو سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔

تحقیقات کرنے والے اداروں کو سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل ہوئی جس میں اسلام آباد رقم کی منتقلی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے، اور یہ فوٹیج اب بھی سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے۔ مزید یہ بھی رپورٹ کیا گیا کہ نکالی گئی رقم کا ایک حصہ سابق وزیرِاعظم کے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کرایا گیا، جس کی شہادتیں موجود ہیں۔

یہ کیس اب بھی آزاد کشمیر کی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ ابھی فعال ہے، اور اگر الزامات ثابت ہو گئے تو سردار تنویر الیاس کو مستقبل میں انتخابات لڑنے سے نااہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انوارالحق نے مزید انکشاف کیا کہ سابق حکومت کے دور میں مختلف محکموں سے تقریباً 7 ارب روپے نکالے گئے، مگر اس رقم کا مکمل مالی ریکارڈ تاحال غائب ہے۔ ایک فورینزک آڈٹ کا آغاز کیا گیا تھا، مگر سوال یہ ہے کہ یہ آڈٹ کہاں تک پہنچا اور اس کی رپورٹ کہاں ہے؟

اطلاعات کے مطابق، وزیرِاعظم تنویر الیاس نے اسمبلی سے ضمنی بجٹ کی منظوری کے لیے متعدد کوششیں کیں، لیکن اُس وقت کے اسپیکر، یعنی انوارالحق، نے یہ کارروائی آگے بڑھانے سے انکار کر دیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تنویر الیاس اکثر کابینہ اجلاسوں میں اسپیکر کی مزاحمت پر شکایت کرتے نظر آتے تھے۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ 7 ارب روپے کے اضافی اخراجات ہی وہ رقم تھی جسے حکومت ضمنی بجٹ کے ذریعے قانونی شکل دینا چاہتی تھی۔ انوارالحق کی جانب سے اس خرچ سے لاعلمی کو کئی حلقے ان مبینہ مالی بے ضابطگیوں کی طرف اشارہ قرار دے رہے ہیں۔

نقدی کی صورت میں 64 کروڑ روپے کے اجرا پر پیدا ہونے والے تنازعے کے جواب میں، سردار تنویر الیاس نے مبینہ طور پر اسے اپنے انتظامی اختیار کے دائرے میں قرار دیا۔ تاہم انکوائری رپورٹ میں اس قدر بڑی رقم کو ذاتی رہائش گاہ یا نجی اکاؤنٹس میں منتقل کرنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں پایا گیا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک سابق وزیرِاعظم اس معاملے کی کوئی قابلِ اعتبار وضاحت پیش نہیں کرتے، یہ مسئلہ ان کے سیاسی کیریئر کا پیچھا کرتا رہے گا۔

ڈاکٹر یاسین رحمان
مصنف اور سیاسی کارکن (لندن)

مزید خبریں