استنبول(روشن پاکستان نیوز) کئی مبصرین اور تجزیہ نگار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ترکی اور صدر رجب طیب ایردوان صرف باتیں نہیں کر رہے بلکہ حقیقت میں خطّے میں متحرک اور مؤثر پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول، ترکی نے مختلف محاذوں پر سخت اور دور رس اقدامات کیے جن سے اس کی اسٹریٹجک پوزیشن مضبوط ہوئی ہے اور حریف قوتوں کے لیے مواقع محدود ہوئے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور ترکی کے درمیان ممکنہ کشمکش کے تناظر میں اسرائیل نے PKK جیسی تنظیموں کو سہارا دینے کی کوشش کی تاکہ ترکی کے خلاف دباؤ پیدا کیا جا سکے۔ تاہم ترکی نے اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدہ فوجی ردعمل دکھایا — شام اور عراق میں تقریباً 30 کلومیٹر تک اندر داخل ہو کر آپریشن کیے اور وہاں روزگار، لاجسٹک اور حفاظتی نقطۂ نظر سے درجنوں فوجی ٹھکانے قائم کیے گئے جن کی تعداد تقریباً سو کے قریب بتائی جا رہی ہے۔
لیبیا میں بھی ترکی کے کردار کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ جب لیبیا میں فیلڈ مارشل حفتر کی قوتیں ملک پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے قریب پہنچ رہی تھیں، ترکی نے طرابلس کی حکومت کی حمایت کر کے سنجیدہ طور پر مداخلت کی۔ اس مداخلت نے مشرقِ وسطیٰ اور بحیرۂ روم میں اسرائیل کے بعض ممکنہ اثر و رسوخ کے راستوں کو محدود کر دیا اور علاقے میں ترکی کے لیے سیاسی و عسکری رسائی کے دروازے کھولے۔
متعلقہ مبصرین نے کہا کہ سوڈان، صومالیہ اور خلیج عدن کے اطراف میں بھی ترکی نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے وہی حکمتِ عملی اختیار کی: مقامی اثر و رسوخ کو منقطع کرنا، حریف کے مواصلاتی اور بحری راستوں کو محدود کرنا، اور بحری و زمینی اڈے قائم کر کے اپنی اسٹریٹجک موجودگی بڑھانا۔ ان اقدامات میں صومالیہ میں بحری اڈہ قائم کرنا، سوڈان کے جغرافیائی معاملات میں رول، اور خلیج عدن میں کنٹرول قائم کرنا شامل بتایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ ترکی کی یہ حرکات محض عارضی کارروائیاں نہیں بلکہ ایک طویل المدّت اسٹریٹجک منصوبے کا حصہ ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ کسی بڑے تنازعے یا براہِ راست جنگ سے پہلے فریق عام طور پر حریف کے دائرۂ اثر کو کمزور کرتا ہے، پراکسی عناصر کو ختم کرتا ہے اور اپنے لیے مواصلاتی و دفاعی راستے محفوظ بناتا ہے — یہی ترتیب ترک حکمتِ عملی میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
مزید برآں، تبصرہ کاروں نے کہا کہ ترکی کو جنگ سکھانے یا جنگ کا سبق دینے والا تصور غلط ہے؛ ان کے نزدیک ترکی نے صدیوں سے عسکری اور سفارتی تجربے حاصل کیے ہیں اور آج بھی وہ اپنی قومی مفادات کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرتا ہے۔ اس پس منظر میں کہا جاتا ہے کہ جب تک براہِ راست مقابلہ نہ ہو، پہلے اس قسم کے اسٹریٹجک قدم اٹھائے جاتے ہیں تاکہ جب صورتِ حال بگڑے تو تمام پہلوؤں کا حساب پہلے ہی سے ہو۔
خلاصہ یہ کہ، خطّے کے منظرنامے میں ترکی کی حالیہ سرگرمیاں ایک مربوط حکمتِ عملی کی عکاس ہیں جس کا مقصد علاقائی توازن کو اپنی جانب مائل کرنا اور حریف قوتوں کے ممکنہ اثرات کو کم کرنا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ اقدامات کچھ حلقوں میں تنقید کا باعث بھی بنے ہیں، وہیں دوسرے حلقوں میں انہیں طاقت اور دور اندیشی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔