پیر,  11  اگست 2025ء
ٹک ٹاک پر بڑھتی ہوئی فحاشی: ویوز اور پیسے کی دوڑ میں اخلاقیات کا جنازہ

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) سوشل میڈیا، خاص طور پر ٹک ٹاک، نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے، مگر اس پلیٹ فارم پر بڑھتی ہوئی فحاشی، گالی گلوچ، اور لائیو سیشنز میں شرمناک حرکات نے معاشرتی حلقوں کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

حال ہی میں ایک لڑکی، جس کا نام اسمہ رمضان بتایا جا رہا ہے، کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔ رمضان کے کانٹینٹ میں ایسی بے حیائی، اخلاق سوز گفتگو، اور غیر مہذب حرکات شامل ہیں کہ دیکھنے والا شرم سے کانوں کو ہاتھ لگا لیتا ہے۔ ویوز، لائکس، اور پیسے کے حصول کی دوڑ میں نوجوان اپنی اخلاقی حدود کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔

سوشل میڈیا ماہرین اور معاشرتی تجزیہ کار اس رویے کو خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ معروف سماجی کارکن انعم بٹ کا کہنا ہے:
“یہ صرف رمضان یا کسی فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی اخلاقی بحران ہے۔ ایسے کانٹینٹ کو فروغ دینے والے پلیٹ فارمز اور ناظرین دونوں کو سوچنا ہوگا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔”

ویوز کے بدلے بے حیائی

یوٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور دیگر پلیٹ فارمز پر “وائرل” ہونے کی دوڑ میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہر حد پار کر رہے ہیں۔ شرم و حیا کی قدریں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ لائیو سیشنز میں غلیظ زبان، غیر مہذب اشارے، اور بعض اوقات برہنہ پن کی حد تک نازیبا حرکات معمول بن چکی ہیں۔

نفسیاتی ماہر ڈاکٹر ماہرہ اشفاق کا کہنا ہے:
“یہ رویہ نہ صرف معاشرتی انحطاط کا مظہر ہے بلکہ نوجوانوں کی ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ جو نوجوان اس کلچر میں شامل نہیں ہونا چاہتے، وہ احساس کمتری کا شکار ہو رہے ہیں۔”

ریاستی ادارے اور والدین کی ذمہ داری

سوال یہ ہے کہ ایسے افراد کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی؟ کیا پیمرا، ایف آئی اے، یا دیگر ریگولیٹری ادارے خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ والدین، تعلیمی ادارے اور معاشرتی رہنما کب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے؟

حل کے لیے تجاویز

  • ڈیجیٹل اخلاقیات کی تعلیم: اسکولوں اور کالجوں میں ڈیجیٹل ایتھکس کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔

  • ریگولیشن اور نگرانی: سوشل میڈیا پر اخلاق سوز مواد اپلوڈ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

  • والدین کا کردار: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر خصوصی نظر رکھیں۔

  • سماجی بیداری: معاشرے میں باعزت اور مہذب مواد کو فروغ دیا جائے، اور فحاشی کو روکنے کے لیے اجتماعی کوششیں کی جائیں۔

مزید خبریں