ڈاکٹر ثمرہ زریں
میڈیکل سپیشلسٹ
بچپن سے سنتی آئی تھی کہ یورپی ممالک کے ہاسپٹلز میں مریضوں کے ساتھ وی آئی پی ٹریٹمنٹ کیا جاتا ہے۔
غریب اور امیر مریض کی تفریق کے بغیر ہسپتال یا کلینک پہنچ جانے والے مریض کو پروفیشنل اور ذمہ دارانہ انداز سے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔
جب مجھے باہر جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے خاص طور پر یہ پلان کیا کہ میں وہاں جا کے ہاسپٹلز کا وزٹ کروں گی تاکہ پاکستان اور یورپی ممالک کے ہاسپٹل کا مواز نہ کر سکوں۔
مغربی ملکوں کے ہسپتالوں کو خود جا کر دیکھا تو حیرت ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔اتنا پر سکون ماحول اور صفائی کا اعلی معیار، کسی جگہ کسی موقع پر بھی ہسپتال انتظامیہ یا سٹاف کی کسی مریض یا اس کے تیمار داروں کے ساتھ تلخی نہیں دیکھی۔۔ کوئی جھگڑا نہیں۔۔کوئی شکایت نہیں ۔ کسی مریض یا اس کی اٹینڈنٹ کو ہسپتال کی انتظامیہ کے حوالے سے شکایت کرتے ہوئے نہ پایا۔۔۔ڈاکٹر مریضوں سے کمرے سے باہر آ کر مسکرا کر ملتے ہیں ۔۔وارڈ کے ملازم ہر مریض کا کام مسکرا کر کرتے ہیں۔کوئی بخشیش نہیں مانگتا۔۔کہیں سفارش کی ضرورت نہیں۔۔۔بڑے VIP بھی عام مریضوں کے ساتھ چیک کرواتے ہیں کیونکہ یہاں ہر مریض کو VIP علاج ملتا ہے
۔۔ جبکہ ہمارے ہاں ایمرجنسی میں آئے ہوئے شخص کو بھی سفارش کروا کر توجہ حاصل کرنا پڑتی ہے یہاں ایک پریگننٹ عورت کو ایک چیک تصور کر کے فورا کیش کروایا جاتا ہے۔
ایسی خواتین جو ماں بننے کے انتظار میں ہوں انہیں اکثر بیڈ کی سہولت میسر نہیں ہوتی اور ایک بیڈ پر دو خواتین کو لٹایا جاتا ہے۔ جہاں ہسپتال میں انڈور پیشنٹس کے لیے ہسپتال مالک کی فارمیسی سے یے جا اور غیر ضروری دوائیاں بھی لینا پڑتی ہیں
ہمارے ہاں ڈاکٹرز کے اپنی لیبارٹریاں ہیں اگر اپنی لیباٹریز نہیں تو پھر کمیشن پر لیب ٹیسٹ لکھ کر متعلقہ لیباٹریز میں ریفر کر دیا جاتا ہے۔۔۔
جب کہ مغربی ہسپتال میں یہ سب دیکھ کر میں سوچ میں پڑ جاتی تھی کہ پاکستان کے ڈاکٹرز ایسے کیوں نہیں ؟
یورپ میں ایک ڈیوٹی ڈاکٹر پورے دن میں 15 سے زیادہ مریض نہیں دیکھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔سپیشلسٹ 7 سے زیادہ مریض نہیں دیکھتا ۔۔۔۔۔۔۔پاکستان میں ڈیوٹی ڈاکٹر ہو یا سپیشلسٹ 100 سے کم مریض شاید ہی کسی کے حصے میں آتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ میں آپریشن تھیٹر میں ایک یا دو سے زیادہ آپریشن نہیں ہوتے ، پاکستان میں 25 روزانہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔
وہاں ڈاکٹر کو اتنی اچھی تنخواہ ملتی ہے کہ اسے شام کو پرائیویٹ کام کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔۔۔۔۔۔
ہسپتال کے نچلے عملے وارڈ بوائے اور آیا کو اتنی اچھی تنخواہ ملتی ہے کہ ان کے گھر کا گزارہ بہت آسانی سے ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اس لیے وہ بخشیش نہیں مانگتے اور ہر مریض سے مسکرا کر بات کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں ایک بستر پر تین مریض لیٹے ہوتے ہیں اور 50 مریضوں کے لیے ایک وارڈ بوائے ۔
جب میں میڈیکل میں پڑھ رہی تھی تو اس وقت ڈاکٹر کو مسیحا کہا کرتے تھے اور آج ڈاکٹر کو قصاب کہتے ہیں
کاش ڈاکٹرز کی عزت پھر بحال ہو