منگل,  04 فروری 2025ء
تعلیمی اداروں میں اخلاقی انحراف: مغربی کلچر کے اثرات اور معاشرتی اقدار کی پامالی

اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) پاکستان میں تعلیمی اداروں کا مقصد ہمیشہ سے علم کا حصول رہا ہے، لیکن آج کل ان اداروں میں تعلیم کے بجائے دیگر موضوعات پر بات چیت زیادہ عام ہو چکی ہے۔ خاص طور پر مغربی کلچر کی تقلید کے نتیجے میں پاکستان میں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے تعلقات کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال نے اسلامی معاشرے کے اصولوں کو ایک چیلنج کی صورت اختیار کر لیا ہے، جہاں خواتین کی کو ایجوکیشن (یعنی لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ساتھ پڑھنا) کا کوئی واضح تصور نہیں تھا، لیکن موجودہ دور میں یہ معمول بن چکا ہے۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ پڑھانے کی روش نے نئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ روز بروز سوشل میڈیا پر مختلف ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں ٹی وی چینل کی ایک پروگرام ہوسٹ کسی یونیورسٹی میں جا کر لڑکوں اور لڑکیوں سے سوالات کرتی نظر آتی ہے کہ “کیا آپ نے کسی کو پسند کر لیا؟” یا “کیا آپ کا کوئی پسندیدہ شخص ہے؟” جیسے بے ہودہ اور غیر مناسب سوالات کیے جاتے ہیں۔ یہ سوالات نہ صرف تعلیمی ماحول میں بے چینی پیدا کرتے ہیں بلکہ معاشرتی اقدار کی بھی پامالی کرتے ہیں۔

پاکستان میں اسلامی معاشرتی اصولوں کے مطابق، تعلیم کا مقصد صرف علم کا حصول اور اخلاقی تربیت ہے، نہ کہ بے ہودہ موضوعات پر بحث۔ اس کے باوجود، موجودہ دور میں ہمارے تعلیمی اداروں میں اس قسم کے تعلقات اور سوالات کی سرعام تشہیر معاشرتی برائیوں کا باعث بن رہی ہے۔ یہ صورتحال ہمارے معاشرتی اصولوں اور تعلیم کے اصل مقصد سے انحراف کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: محکمہ تعلیم سندھ نے 28 جنوری کو چھٹی کا اعلان کر دیا

معاشرتی اقدار کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان اداروں میں ایسی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے مؤثر اقدامات کریں۔ پیکا ایکٹ کے تحت ان افراد پر کارروائی کی جانی چاہیے جو اس طرح کی بے ہودہ مواد کو پھیلانے میں ملوث ہیں۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے طلباء و طالبات کو معاشرتی ذمہ داریوں کا شعور دلائیں اور انہیں علم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی فراہم کریں تاکہ معاشرے میں ایسی برائیوں کا سدباب کیا جا سکے۔

مزید خبریں