لندن(صبیح ذونیر) برطانیہ میں چند ہفتے قبل قائم ہونے والی نئی حکومت نے برطانیہ کو بین الاقوامی سطح پر کسی قانونی چیلنجوں اور انسانی سطح پر شرمندگی سے بچانے کے لیے اسرائیل کو اسلحے کی ترسیل میں معمولی کمی کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم لیبر پارٹی کی اس برطانوی حکومت کے اس محدود اور علامتی نوعیت کے فیصلے کے باوجود اسرائیل کےساتھ ساتھ خود برطانیہ میں بھی مایوسی ظاہر کرنے والے سیاست دانوں کی کمی نہیں ہے۔
کیونکہ سات اکتوبر کے بعد سے برطانوی ہتھیاروں کی اسرائیل کو ترسیل کا معاملہ ایک جذباتی نوعیت اختیار کیے رہا ہے۔ سات اکتوبر سے اب تک غزہ میں لگ بھگ 41 ہزار فلسطینی ہلاک چکے ہیں۔
یاد رہے سات اکتوبر سے جہاں برطانیہ کی حکومت اسرائیل کی غزہ جنگ میں اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک اہم حکومت رہی ہے، وہیں برطانیہ کے ہزاروں رہنے والے اسرائیلی جنگ میں عورتوں اور فلسطینی بچوں کی غزہ میں اندھا دھند ہلاکتوں کے خلاف بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کر چکے ہیں۔
برطانیہ میں کرائے گئے مخلتف سرویز سے بھی پچاس فیصد سے زائد لوگوں کا یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے۔ صرف 13 فیصد عوام اس جنگ کو روکنے کے مخالف ہیں۔
لیکن جو فیصلہ برطانوی حکومت نے محدود بنیادوں پر ہی سہی اسلحے کی فراہمی میں کمی سے کیا ہے، یہ اسرائیل اور برطانیہ کے درمیان سفارتی تناؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ جیسا کہ نیتن یاہو نے بہت سخت رد عمل دیتے ہوئے برطانیہ کے اس فیصلے کو شرمناک قرار دیا ہے۔
برطانوی وزیر دفاع جان ہلیلے نے کہا ہے کہ ‘ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو سخت ترین حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ اپنے قریبی دوستوں کو بھی آگاہ کیا جائے اور اس بات پر زور دیا کہ اگر وہ دوبارہ براہ راست حملے کی زد میں آیا تو وہ اسرائیل کی حمایت کے لیے پرعزم ہے۔’
مزید پڑھیں: برطانیہ میں کشتی اُلٹنے سے 12 غیر قانونی تارکینِ وطن ہلاک
یاد رہے جولائی میں وزیر اعظم سٹارمر نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کے نیتن یاہو کے جنگی جرائم کی وجہ سے وارنٹ گرفتاری کے ایشو کے خلاف تعاقب پر پچھلی برطانوی حکومت کے اعتراضات کو مسترد کر دیا تھا۔ سٹارمر کی حکومت نے اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ادارے ‘ انروا’ کے لیے فنڈنگ دوبارہ شروع کر دی ہے۔