هفته,  05 اکتوبر 2024ء
گند م کی درآمد سے قومی خزانہ کو 300 ارب روپے کا ٹھیکہ! تحقیقات یا بچائو مہم! اصل ذمہ دار کون ؟تفصیلی رپورٹ پڑھیئے

اسلا م آباد(روشن پاکستان نیوز) نگراں دور حکومت میں غیرضروری گندم کی درآمد کی تحقیقات کافیصلہ کرلیا گیاہے، میڈیا رپورٹ کے مطابق نگراں دور حکومت میں گندم کی درآمد سے تقریباً75 ارب  روپے کا ٹھیکہ عوام کو لگا یا گیا ہے۔ بیرون ملک سے گندم منگوانے کے باعث قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور اندرون ملک بمپر فصل سے حاصل ہونے والی گندم کی فروخت اور اسٹوریج کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے۔

گندم برآمد سے متعلق وزیراعظم شہباز شریف نے معاملے کی چھان بین کا حکم دیتے ہوئے تحقیقاتی ٹیم بھی بنادی ہے جس کے سربراہ جسٹس (ر) میاں مشتاق مقرر کئے گئے ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی نگراں حکومت کے گندم درآمد کرنے کے فیصلے کے اسباب کا جائزہ لینے اور دو ہفتے میں وزیراعظم کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔ دوسری جانب گندم درآمد کے اس عمل کے حوالے سے ہوشربا انکشافات سامنے آنے شروع ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وزارت تجارت اور ٹی سی پی کی کی تجاویز نظرانداز کردی گئیں اور نجی شعبے کو کسٹم ڈیوٹی اور جی ایس ٹی سے بھی چھوٹ مل گئی۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق اس عمل سے قومی خزانے کو 300ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ یہ بات متوقع تھی کہ اس بار ملک میں گندم کی شاندار فصل حاصل ہوگی۔ اس کے ذخیرہ اور فروخت کرنے کے خاطر خواہ انتظامات کئے جانے چاہئیں تھے جبکہ باردانہ کی فراہمی سمیت کسانوں کو وہ تمام سہولتیں دی جاتیں جن سے غیرمعمولی منافع حاصل کرنے کی امیدیں پوری ہوتیں۔ مگر ذرائع کے مطابق متعلقہ وزیر کی مخالفت کے باوجود یوکرین سے گندم امپورٹ کرنے کی سمری وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی جو سرکولیشن کے ذریعے منظور کرلی گئی۔ مذکورہ خریداری اور درآمد زرمبادلہ کی فراہمی سمیت کئی معاملات پر قابو پائے بغیر ممکن نہیں تھی جبکہ ڈالروں کا بندوبست بھی ہوگیا اور دوسری راہیں بھی ہموار ہوگئیں۔ یہ سب باتیں توجہ طلب اور تفتیش طلب ہیں۔ ان کے بارے میں تفصیلات حاصل ہونی ضروری ہیں اور یہ پتہ چلنا چاہئے کہ نگراں وفاقی کابینہ کو اس امپورٹ کے اثرات سے کیونکر اور کن لوگوں نے لاعلم رکھا۔ وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کی ایک سمری کے مطابق ملک میں 28اعشاریہ 18ملین ٹن گندم پیدا ہوئی اور 2.45ملین ٹن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاسکو اور صوبائی محکمے مطلوبہ ہدف 7.80کے بجائے 5.87ٹن گندم خرید سکے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گندم کی سرکاری خریداری شروع نہ کئے جانے کے خلاف کسانوں کے مظاہرے جاری ہیں، گرفتاریاں اور لاٹھی چارج کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ کسان منتظر ہیں کہ گندم خریداری مہم شروع ہو جبکہ آڑھتی کسانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر ان سے سستے داموں گندم خرید رہے ہیں۔ پاکستان کسان اتحاد کے مطابق گندم کے کاشتکاروں کو انکی لاگت بھی وصول نہیں ہورہی۔ سرکاری قیمت سے ایک ہزار روپے فی من کم قیمت پر گندم خریدی جارہی ہے۔ اس صورتحال میں وہ اس قابل بھی نہیں رہے کہ آئندہ فصلوں کپاس اور چاول کے لئے ضروری لوازمات خرید سکیں۔ موجودہ بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سابق نگران حکومت نے گندم کی کٹائی سے چند ہفتے قبل درآمدی گندم سے سرکاری گودام بھردئیے جسکے باعث نئے اسٹوریج کی گنجائش نہیں رہی۔ عملی صورتحال یہ ہے کہ کسان پریشان ہیں، انکی معیشت کا بیشتر انحصار گندم کی فصل اور آمدن پر ہے۔ سرکار نے گند م کی خریداری کے جونرخ مقرر کئے تھے وہ انہیں حاصل نہیں ہورہے۔ باردانہ نہیں مل رہا۔ گندم فروخت نہیں ہوپارہی۔ یہ کیفیت اذیت ناک ہے۔ حکومت کو گندم کی خریداری کے ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اگلی فصل پر گندم کی بوائی کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔

گندم کی اضافی درآمد میں سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا نام سامنےآگیا

گندم درآمد اسکینڈل کی تحققیات کے دوران اہم انکشافات سامنے آئے ہیں، ابتدائی رپورٹ کے مطابق نجی شعبے کو گندم درآمد کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی، منظم منصوبے کے تحت اضافی گندم درآمد کی گئی، اضافی گندم درآمد کرنے سے 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق نگراں حکومت کے دور میں وزارت خزانہ کی سفارش پر نجی شعبے کو مقررہ حد کی بجائے کھلی چھوٹ دی گئی، گندم کے ٹریڈرز نے اربوں روپے کا کھیل کھیلا۔رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ گندم درآمدگی پر کسٹم ڈیوٹی اور جی ایس ٹی کی چھوٹ بھی دی گئی جبکہ سانق نگران وزیراعظم انوارلحق کاکڑ کی منظوری ملنے کے بعد وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے سمری ارسال کی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے وزارت تجارت اور ٹی سی پی کی اہم تجاویز کو نظر انداز کیا، منظم منصوبے کے تحت اضافی گندم درآمد ہوئی جس سے 300 ارب روپے سے زائد نقصان ہوا۔

خریداری نہ ہونے کے باعث گندم کی قیمتوں میں مزید کمی

خریداری نہ ہونے کے باعث گندم کی قیمتوں میں مزید کمی ہوگئی۔پنجاب اور سندھ کے مختلف اضلاع میں کسان فی من گندم 2800 روپے تک بیچنے پر مجبور ہوگئے۔ادھرپنجاب حکومت اور کسانوں کے درمیان گندم کی خریداری پر معاملات طے نہ پا سکے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق محکمہ خوراک کے مطابق چھوٹے کسانوں کو چند دن بعد کسان کارڈز کے ذریعے امداد دینے کا سلسلہ شروع کردیا جائے گا تاہم فلور ملز، سیڈ ملز اور آڑھتیوں نےگندم کی خریداری کے لیے مارکیٹ کا رُخ کرلیا ہے۔دوسری جانب کسان اتحاد کے صدر خالد باٹھ اور کسان بچاؤ تنظیم کے رہنما جاوید سلطان کا کہنا ہےکہ حکومتی بے حسی کے خلاف 2 مئی سے تمام اضلاع میں مظاہرے کیے جائیں گے، کسان اپنے مویشی اور گندم سڑکوں پر لا کر احتجاج کریں گے، کسانوں کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: گندم خریداری بحران : باردانہ کسانوں کے بجائے مڈل مین کو فروخت کیے جانے کا انکشاف

مزید خبریں