تحریر: علی شیر خان محسود
ایسے گروہ ہر قسم کے حالات کو منفی زاوئیے سے پیش کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ جس سے وہ عوام میں منفی پروپیگنڈہ کرکے انکے ذہنوں میں بد اعتمادی پیدا کرتے ہیں اور پھر اسی بد اعتمادی کا فا ئد ہ اٹھا کر سیاست اور ریاست دونوں کی دیواروں میں دراڑیں ڈالنے کی مذموم کوششوں میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ جس سے عوام کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ اسی تناظر میں جب ہم دیکھتے ہیں۔ تو پہلے انہی گروہوں نے الیکشن کرانے اور نہ کرانے کے بارے میں عوام کو منفی سوچ اور گو مگو کی کیفیت میں مبتلا رکھا۔ جب الیکشن کرانے کا وقت قریب آیا تو بھان متی کے ٹولے نے کورس کی شکل میں واویلا مچانا شروع کیا کہ جب ایک مخصوص پارٹی کے سربراہ کو پرائم منسٹر بنانا ہی ہے۔ تو الیکشن کرانے کی کیا ضرورت جس سے عوامی طور پر پزیرائی بھی ملی۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ تھا۔ لیکن عوام کے ذہنوں میں ابھرنے والی منفی سوچ کو مزید تقویت ملی۔ کہ واقعی بات درست لگ رہی ہے۔ اسی منفی سوچ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اسٹبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کیا گیا ۔ جس سے انکے منفی اثرات مرتب ہونے میں مدد ملی۔ عوام کی اکثریت واقعی یہ سمجھنے لگی کہ پاکستان کے دونوں محترم ادارے عوامی مینڈیٹ کے برعکس کوئی کام کر رہے ہیں۔ جبکہ یہ بھی صریح جھوٹ اور منفی آفواہیں تھیں ۔ جب سے الیکشن ہوئے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی اونٹ کو نکیل ڈال کر ایک کروٹ بٹھا دیا گیا۔ جس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ معاشی، سیاسی طور پر اندرونی و تمام بیرونی معاملات کو حل کرنے میں کامیاب حاصل کرنے کی اہل ہے۔ تو پاکستان کے دوست نما دوشمن نے بیرونی محاذ پر اپنی توجہ پھر سے مرکوز کردی۔ تاکہ پاکستان میں امن وامان کی بد تر صورتحال برقرار رکھی جائے۔ کیونکہ ایک طرف مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری طرف مہنگائی کا اژدھا منہ کھولے عوام کو نگل رہا ہے۔ تیسری طرف عوام اور حکومت میں بد اعتمادی کی فضا اور پاالخصوص پاک آرمی کے خلاف منظم مسلسل منفی پروپیگنڈہ ۔ جب ہم ان تمام باتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا محسوس ہو رہا ہے۔ کہ پاکستان میں ملک کا وہ دوشمن گروہ اپنی دوشمنی کی انتہا تک پہنچ چکا ہے۔ جس سے آگے اب کسی بھی اس پڑوس کے ملک زمینی جنگ کی تیار ہے۔ جس کی طرف پاکستان کو دشمن آہستہ آہستہ دھکیلتا جا رہا تھا۔ جسکی تازہ ترین کڑی شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے جانبازوں کی شہادتیں ہیں۔ حالانکہ سیاسی طور پر حالات مثبت اثرات مرتب کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ لیکن پاکستان کو ایک ایسے شاطر دشمن کا سامنا ہے جو پاکستان کے اکثر مثبت منصوبوں سے وقف بھی ہے اور ان پر کڑی نظر بھی رکھتا ہے۔ کہ جہاں کمزوری نظرآئے تو سب سے پہلا وار وہیں پر کرتا ہے۔ جسکو اسکا سو فیصد کامیابی کا ملنے کا امکان ہو۔ ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ کہیں ہماری صفوں میں وہ ممکنہ دشمن چھپا ہوا تو نھیں ہے جسکو ہم اپنا خیر خواہ سمجھ رہے ہیں۔ پہلے پہل تو ہمیں اپنی صفوں پر نظر ڈالنی چاہیے کہ دوست اور دشمن کی پہچان کرسکیں۔ کیونکہ اب دشمن ہمیں بیرونی محاذ کی دھکیل کر کسی طرح الجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسکی وجہ یہ کہ اندرونی طور ہاکتانکو جنگ میں مبتلا کرنے میں دشمن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ لہذا آپ پاکستان کے پالیسی سازوں کو انتہائی گہرائی اور عرق ریزی سے تمام اندرونی اور بیرونی معاملات پر کڑی نظر رکنے کی ضرورت ہے۔