منگل,  11 نومبر 2025ء
کیڈٹ کالج وانا پر دہشتگردوں کا حملہ

تحریر:ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

مملکت خداداد پاکستان کی تاریخ میں دہشتگردی ایک ایسا زخم ہے جو کئی دہائیوں سے قوم کے جسم پر لگا ہوا ہے۔ 1979ء کی افغان جنگ سے لے کر 9/11 کے بعد کے عالمی منظرنامے تک، پاکستان اس خطے میں دہشتگردی کے سب سے بڑے شکار کے طور پر سامنے آیا۔ قبائلی علاقہ جات، خصوصاً جنوبی وزیرستان اس جنگ کے سب سے زیادہ متاثرہ حصے رہے۔ مگر حالیہ برسوں میں پاک فوج اور عوام کے غیر متزلزل عزم نے دہشتگردی کی کمر توڑ دی تھی۔ ایسے میں جنوبی وزیرستان کے کیڈٹ کالج وانا پر دہشتگردوں کا حملہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ دشمن اب بھی پاکستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں سے باز نہیں آیا۔
جنوبی وزیرستان ہمیشہ سے دفاعی اور جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم علاقہ رہا ہے۔ 2004ء سے 2016ء تک یہاں دہشتگردوں کے خلاف کئی بڑے فوجی آپریشن کیے گئے جن میں راہ نجات، ضربِ عضب اور عزمِ استحکام نمایاں ہیں۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں دہشتگردوں کی بڑی تعداد ہلاک یا بے دخل ہوئی اور ریاست نے علاقے میں ترقیاتی منصوبے، تعلیمی ادارے اور بنیادی ڈھانچہ قائم کیا۔ انہی اداروں میں سے ایک اہم ادارہ کیڈٹ کالج وانا ہے جو نہ صرف تعلیم بلکہ قومی یکجہتی اور عسکری نظم و ضبط کی تربیت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق، بھارتی سرپرستی یافتہ گروہ “فتنہ الخوارج” نے افغانستان سے ہدایات لے کر کیڈٹ کالج وانا پر حملہ کیا۔ دہشتگردوں نے مین گیٹ پر بارودی مواد سے بھری گاڑی سے حملہ کیا، لیکن پاک فوج کی بروقت کارروائی نے ان کے تمام عزائم خاک میں ملا دیے۔ دو دہشتگرد موقع پر ہی مارے گئے جبکہ تین ایڈمن بلاک میں محصور ہوگئے۔ ترجمان پاک فوج نے واضح کیا کہ یہ عناصر اے پی ایس پشاور جیسے سانحے کو دہرانے کی کوشش کر رہے تھے، مگر فوجی جوانوں کی چوکسی نے ایک اور قومی سانحے کو ٹال دیا۔
یہ حملہ محض ایک تعلیمی ادارے پر دہشتگردی نہیں بلکہ پاکستان کے نظریاتی وجود، نوجوان نسل اور امن و استحکام پر حملہ تھا۔ “فتنہ الخوارج” جیسے گروہ دراصل اس خطے میں بیرونی مفادات کے آلہ کار ہیں جو افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس واقعے نے طالبان حکومت کے اس وعدے پر بھی سوال اٹھا دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
پاکستان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ دہشتگرد اب روایتی محاذ کے بجائے نظریاتی اور نفسیاتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کا ہدف وہ ادارے ہیں جو قومی عزم اور نظم و ضبط کی علامت ہیں۔ کیڈٹ کالج وانا پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ریاستی اداروں نے جس طرح فوری ردِ عمل دکھایا، وہ قابلِ تحسین ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دہشتگردوں کی منصوبہ بندی افغانستان سے ہو رہی ہے، جس پر عالمی سطح پر سنجیدہ سفارتی دباؤ ڈالا جانا ضروری ہے۔ پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ دہشتگردوں کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں، مگر عالمی برادری کی خاموشی اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔
اس حملے کے بعد عزمِ استحکام کے تحت کلیئرنس آپریشن کا تسلسل نہ صرف جنوبی وزیرستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے ناگزیر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ داخلی سکیورٹی نظام کو مزید مضبوط کیا جائے، تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے معیار کو بہتر بنایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں میں قومی شعور بیدار کیا جائے تاکہ وہ کسی بھی فکری یا مذہبی انتہا پسندی کا شکار نہ ہوں۔
کیڈٹ کالج وانا پر دہشتگردوں کا حملہ ناکام بنا کر پاکستانی سکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ ہر حال میں ملک کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔ یہ واقعہ قوم کو یاد دلاتا ہے کہ امن ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ دشمن بزدل ہو سکتا ہے، مگر پاکستان کے سپاہی بہادر اور باعزم ہیں۔
دہشتگردی کی یہ جنگ اب بندوقوں سے زیادہ فہم، اتحاد اور تعلیم سے جیتی جا سکتی ہے۔ اگر ریاست، عوام، اور ادارے ایک ساتھ کھڑے رہیں تو کوئی بھی “فتنہ” پاکستان کے استحکام کو متزلزل نہیں کر سکتا۔ ان شا الله

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

مزید خبریں