لندن(روشن پاکستان نیوز) برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر کے بھارت کے حالیہ دورے نے دو طرفہ تعلقات میں نئی جہتیں پیدا کی ہیں۔ اس دورے کا مرکزی مقصد برطانوی سرمایہ کاری میں اضافہ اور دو طرفہ تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا تھا، جبکہ ویزا قوانین کے حوالے سے وزیراعظم کی سخت پالیسی نے اس دورے کی ایک نمایاں پہلو بھی سامنے لائی ہے۔
تجارتی معاہدہ اور اقتصادی مواقع
سر کیئر اسٹارمر نے بھارت میں ایک بڑے تجارتی معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت برطانیہ اور بھارت کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ اس معاہدے کے مطابق برطانوی کاروں اور وسکی کی برآمدات بھارت کو سستی پڑیں گی، جبکہ بھارتی کپڑے اور زیورات کی برطانیہ برآمدات بھی کم قیمت پر ہوں گی۔ یہ معاہدہ اربوں پاؤنڈ کے تجارتی فوائد کا باعث بنے گا، جس سے دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔
اس کے علاوہ، بھارتی کارکنوں کے لیے مختصر مدت کے ویزے پر کام کرنے والوں کو تین سالہ سماجی تحفظ کی ادائیگی سے استثنیٰ دیا گیا ہے، جو ایک اہم پیش رفت ہے۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں کہ برطانیہ نے ویزا پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی کی ہے۔
ویزا پالیسی پر سخت موقف
دورے سے قبل اور دوران، وزیراعظم نے واضح کیا کہ بھارت کے لیے ویزا قوانین میں کوئی نرمی نہیں کی جائے گی۔ یہ بیان خاص طور پر اہم ہے کیونکہ برطانیہ میں سیاسی اور معاشرتی دباؤ کے تحت امیگریشن کی سطح کو کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ سر کیئر اسٹارمر نے کہا کہ بھارت کے لیے کوئی نئے ویزا راستے کھولنے کا ارادہ نہیں ہے، چاہے دنیا بھر سے اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے افراد کو برطانیہ لانے کی خواہش ہو۔
یہ موقف برطانیہ کے اندرونی سیاسی حالات اور عوامی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے لیا گیا ہے، جہاں امیگریشن پر سختی کے حق میں زیادہ تر رائے موجود ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت کو ایک اور دھچکا ، برطانوی وزیراعظم کا ویزا قوانین میں نرمی سے انکار
ثقافتی تعلقات اور یش راج فلمز کا واپسی
تجارت کے ساتھ ساتھ ثقافتی تعلقات کو بھی فروغ دیا گیا ہے۔ یش راج فلمز کے برطانیہ میں دوبارہ فلمیں بنانے کا اعلان ایک اہم سنگ میل ہے، جو آٹھ سالہ وقفے کے بعد ہوا ہے۔ اس سے برطانیہ میں 3,000 نوکریاں پیدا ہوں گی اور معیشت کو کروڑوں پاؤنڈ کا فائدہ پہنچے گا۔ یہ قدم دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات کو مزید گہرا کرے گا اور برطانوی فلمی صنعت کو بھی مضبوط بنائے گا۔
حکومتی حکمت عملی اور عالمی تناظر
برطانیہ کا یہ موقف کہ وہ عالمی سطح پر “اعلیٰ صلاحیت کے حامل افراد” کو متوجہ کرنا چاہتا ہے مگر بھارت کے لیے کوئی خصوصی ویزا منصوبہ بندی نہیں کر رہا، اس کی خارجہ پالیسی میں توازن اور محاسبے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو برطانوی عوام کو بھی مطمئن کرتا ہے اور ساتھ ہی عالمی سرمایہ کاری کو بھی فروغ دیتا ہے۔
برطانیہ کی یہ پالیسی بریگزٹ کے بعد اپنی نئی عالمی حکمت عملی کے حصے کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے، جس میں وہ اپنی تجارتی شراکت داریوں کو بڑھانا چاہتا ہے مگر امیگریشن پر کنٹرول بھی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
خلاصہ
سر کیئر اسٹارمر کا بھارت دورہ تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اہم اقدام ہے، جس نے سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ تاہم، ویزا قوانین میں نرمی نہ کرنے کا سخت موقف ایک واضح پیغام ہے کہ برطانیہ اپنی امیگریشن پالیسی میں بڑی تبدیلی نہیں کرے گا، چاہے تعلقات کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں۔
یہ حکمت عملی برطانیہ کے اندرونی سیاسی حالات، معاشی ضروریات اور عالمی مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دی گئی ہے، جو مستقبل میں بھی برطانیہ-بھارت تعلقات کی نوعیت اور سمت کا تعین کرے گی۔