اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) پاکستان کے مختلف شہروں میں مذہبی، سیاسی اور سماجی تنظیمیں مسلسل کانفرنسز، اجتماعات اور تقاریب کا انعقاد کرتی رہتی ہیں، جن میں عوامی شرکت کو مذہب، حبِ رسول ﷺ اور قومی یکجہتی کے نام پر فروغ دیا جاتا ہے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں کچھ ایسے پروگرامز پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کے بظاہر مذہبی عنوانات کے باوجود ان کے مقاصد اور ترجیحات پر عوام اور مبصرین تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
حال ہی میں پنجاب کے علاقے کڑیانوالہ میں منعقد ہونے والی “سیرت خاتم النبیین ﷺ کانفرنس” کا ایک بڑا پوسٹر سامنے آیا ہے جس میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے بیٹے حسین محی الدین قادری کی تصاویر نمایاں ہیں۔ اس کانفرنس کے پوسٹر میں متعدد مقامی مذہبی اور سماجی شخصیات کو بھی مدعو مقررین کے طور پر دکھایا گیا ہے، تاہم اس تقریب کے انعقاد کے مقام اور وقت نے مختلف حلقوں میں بحث چھیڑ دی ہے۔
پہلا اعتراض یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اس کانفرنس کا انعقاد ایک شادی ہال میں کیا جا رہا ہے، حالانکہ اسی علاقے میں ایک جامع مسجد موجود ہے جہاں ایسی مذہبی تقریبات زیادہ روحانی ماحول میں منعقد کی جا سکتی تھیں۔ مذہبی اجتماعات کو مسجد کی فضا سے باہر نکال کر پرتعیش ہالز میں لے جانا صرف ایک نمائش یا پروٹوکول کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔
دوسری بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ کانفرنس کا دن اتوار رکھا گیا ہے۔ جبکہ جمعہ اسلامی نقطۂ نظر سے سب سے افضل اور بابرکت دن ہے، جہاں خطبہ جمعہ اور نماز کے ذریعے مذہبی تعلیمات کا فطری ماحول میسر ہوتا ہے۔ اتوار، جو کہ مغربی دنیا کا چھٹی کا دن ہے، اسے ایسے مذہبی پروگرام کے لیے چننا سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعتیں اب اپنے اجتماعات کو عوامی تعطیلات یا مارکیٹنگ کے انداز میں ترتیب دے رہی ہیں، جس سے روحانیت کم اور دکھاوا زیادہ جھلکتا ہے۔
بینر میں سے بیشتر لوگ پاکستان موجود بھی نہیں اور ان افراد کی تصاویر لگائی گئی ہیں جن کا مذہب سے زیادہ نمود ونمائش اور اپنی پذیرائی ہے جو پاکستان میں موجود نوجوانوں پر انتہائی غلط ہے وہ تعلیم و تربیت سے ہٹ کر ایسی سرگرمیوں میں زیادہ مگن ہو چکے ہیں۔ سیاسی مقاصد کے لیے منہاج القرآن کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
علاوہ ازیں، اس وقت جب کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری، معصوم بچوں کی شہادتیں، خواتین کی بے حرمتی اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے، پاکستان کی کئی مذہبی جماعتیں اور ان کے ذیلی ونگز مکمل خاموش نظر آتے ہیں۔ عوامی تحریک سمیت دیگر جماعتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عالمی مظالم کے خلاف مؤثر آواز اٹھائیں، لیکن ایسے اہم انسانی المیے پر مکمل خاموشی اور اندرونِ ملک محض جلسوں کا اہتمام ان کی ترجیحات پر سوال اٹھاتا ہے۔
اس کانفرنس پر یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ یہ بیرونِ ملک فنڈنگ سے چلنے والے پروجیکٹس کا حصہ ہیں، جن کا مقصد مذہبی جذبات کا استعمال کر کے پاکستانی نوجوانوں کو ایک مخصوص نظریاتی ڈھانچے میں قید کرنا اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔ اس بات پر بھی تنقید ہو رہی ہے کہ نوجوانوں کو مذہب کے نام پر صرف جلسوں، نعرہ بازی اور شخصی عقیدت کی تعلیم دی جا رہی ہے، جبکہ وہ اپنے گھروں میں والدین کا احترام، سماجی اخلاقیات، اور حقیقی دینی شعور سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ معاشرتی منظرنامے میں مذہبی پروگراموں کا مقصد اگر صرف نمود و نمائش، شخصی عقیدت اور مقامی اثر و رسوخ کی سیاست بن کر رہ جائے تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ایسی تقاریب کا اصل مقصد سیرت النبی ﷺ کی تعلیمات کو عام کرنا ہونا چاہیے، نہ کہ کسی مخصوص شخصیت یا جماعت کے لیے مقبولیت سمیٹنا۔ مذہب کا تعلق دل سے، کردار سے، اور سماجی ذمہ داری سے ہے، نہ کہ صرف بینرز، اسٹیج اور پروجیکشن سے۔
عوامی اور دینی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ مذہبی رہنما اور تنظیمیں اپنی توجہ اصل مسائل کی طرف مبذول کریں، خصوصاً مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کریں، اور نوجوانوں کو صرف تقریروں سے نہیں بلکہ عمل سے دین کے قریب لائیں، تاکہ ایک بااخلاق، باشعور اور باکردار معاشرہ تشکیل پا سکے۔
مزید پڑھیں: گجرات: کرکٹ میچ میں اوور نہ دینے پر لڑائی 3 جانیں نگل گئی