دنیا ہمیشہ اُن شخصیات کو یاد رکھتی ہے جو اپنے علم، کردار، اور خدمتِ انسانیت کے ذریعے نہ صرف اپنی قوم بلکہ عالمی سطح پر انسانوں کے دلوں کو چھوتی ہیں۔ علمی دنیا میں جب ایسی دو شخصیات اکٹھی ہو جائیں جو مختلف میدانوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہوں تو اُس لمحے کو ایک تاریخ ساز لمحہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔ کینیڈا کی سرزمین پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ڈاکٹر حافظ سید حامد فاروق بخاری کی ملاقات بھی ایک ایسا ہی روح پرور اور یادگار واقعہ ہے جس نے علمی، فکری اور روحانی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی و فکری عظمت
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں جنہوں نے درس و تدریس، تحقیق و تصنیف، فقہ و قانون، تصوف و روحانیت، اور سیاست و بین الاقوامی تعلقات تک ہر میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی علمی و تصنیفی خدمات کا حجم ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔ 1000 سے زائد کتب اور دنیا کی بڑی بڑی جامعات میں لیکچرز ان کے علمی قد کا مظہر ہیں۔
فکری خدمات: قرآن و سنت کی تعبیرات کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنا، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف علمی بنیادوں پر دلائل دینا، اور امن و محبت کا پیغام عام کرنا ان کی فکر کی بنیاد ہے۔
تنظیمی خدمات: تحریک منہاج القرآن کے ذریعے دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں اسلام کے حقیقی، روشن اور اعتدال پسند پیغام کو عام کیا۔
تصنیفی خدمات: قرآن و حدیث کی تشریحات، فقہ اسلامی کے اصول، معیشت، سیاست اور اخلاقیات پر گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ ان کی “انسائیکلوپیڈیا آف حدیث” کو علمی دنیا میں ایک سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔
یہ کہنا درست ہوگا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے موجودہ دور میں علمی اور دینی محققین کے لیے ایک ایسا ذخیرہ فراہم کیا ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہوگا۔
دوسری جانب
جانشین سفیرضیاءالامت
ڈاکٹر حافظ سید حامد فاروق بخاری، جو بوکن شریف گجرات کے علمی و روحانی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی معتدل مزاجی، بین المسالک ہم آہنگی اور نسلِ نو کی فکری آبیاری کے حوالے سے معروف ہیں۔ ان کی شخصیت میں ایک ہمہ جہتی اور نرمی پائی جاتی ہے۔
معتدل مزاجی: وہ ہمیشہ اختلافات کے باوجود اتحاد کی بات کرتے ہیں اور کسی بھی گروہ کو رد کرنے کے بجائے مکالمے اور محبت کے ذریعے قریب لانے کے حامی ہیں۔
بین المسالک ہم آہنگی: پاکستان جیسے ملک میں جہاں فرقہ واریت نے معاشرے کو تقسیم کر رکھا ہے، وہاں ان کی کوششیں کہ تمام مسالک کے درمیان محبت، تعاون اور یکجہتی قائم ہو، کسی نعمت سے کم نہیں۔
نسل نو کی علمی و فکری آبیاری: آج کے نوجوان جنہیں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے چیلنجز درپیش ہیں، اُن کے لیے ڈاکٹر حامد فاروق بخاری ایک ایسا سہارا ہیں جو ان کے ذہنوں کو مثبت اور تعمیری سوچ کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ طلبہ اور نوجوانوں کو قرآن و سنت کے حقیقی پیغام اور جدید تعلیم کی اہمیت پر آمادہ کرتے ہیں۔
جب ایسی دو شخصیات ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو یہ ملاقات محض ایک رسمی ملاقات نہیں رہتی بلکہ یہ افکار و خیالات کے تبادلے کا ذریعہ بنتی ہے۔ کینیڈا میں ہونے والی یہ ملاقات کئی حوالوں سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے:
علمی تبادلہ: دونوں شخصیات نے دینی و فکری مسائل پر ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کیا اور مستقبل کے امکانات پر گفتگو کی۔
شیخ السلام نے کتب کے تحائف پیش کیے
یہ ملاقات اس بات کی علامت ہے کہ علمی شخصیات کا اصل مشن فرقہ واریت نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کا اتحاد ہے۔
علمی اور روحانی اثرات
یہ ملاقات جہاں علمی طور پر ایک نئی جہت کی عکاس ہے، وہیں روحانی طور پر بھی ایک بڑی خوشبو رکھتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور ڈاکٹر حامد فاروق بخاری تصوف اور روحانیت کے مسافر ہیں۔ ان کی گفتگو اور موجودگی نے حاضرین کو ایک نیا حوصلہ دیا اور یہ یقین دلایا کہ علم و عرفان کے یہ چراغ کبھی بجھنے والے نہیں۔
اس ملاقات نے ایک بار پھر یہ پیغام دیا کہ اہلسنت کے دامن میں ایسی شخصیات موجود ہیں جو علم و فکر کے ساتھ ساتھ محبت و امن کے پیغامبر ہیں۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ڈاکٹر حافظ سید حامد فاروق بخاری کی یہ ملاقات اس بات کا ثبوت ہے کہ جب علم، فہم، محبت، اور رواداری کے حامل لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو معاشرہ ایک نئی روشنی کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ ملاقات صرف دو افراد کی ملاقات نہیں بلکہ دو فکری دھاروں کی ہم آہنگی اور دو علمی روایتوں کی جڑت ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف کینیڈا بلکہ دنیا بھر میں پھیلیں گے اور آنے والی نسلوں کو ایک واضح پیغام دیں گے کہ اسلام امن، محبت، رواداری اور خدمتِ انسانیت کا دین ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان دونوں شخصیات کو صحت و سلامتی، درازی عمر اور مزید علمی و روحانی برکتوں سے نوازے تاکہ امتِ مسلمہ ان کے فیوض و برکات سے ہمیشہ بہرہ مند ہوتی رہے۔ آمین۔