دبئی(روشن پاکستان نیوز) پاکستانی معیشت کا ایک بڑا سہارا بیرون ملک سے آنے والی ریمیٹینسز (ترسیلاتِ زر) ہیں، جو ہر سال اربوں ڈالرز کی شکل میں ملک میں آتی ہیں۔ لیکن ان رقوم کے پیچھے وہ لاکھوں پاکستانی ہیں جو خلیجی ریاستوں، افریقہ، اور اب یورپ میں اپنی محنت کی کمائی وطن بھیجتے ہیں۔ انہی محنت کشوں اور ان کی ضروریات کو سمجھنے اور ان کے لیے مالیاتی نظام کو مؤثر اور قابل رسائی بنانے میں ایک نمایاں نام ہے — فرید جیلانی۔
آغازِ سفر: 2016 سے ایک مشن کی شروعات
فرید جیلانی نے 2016 میں اپنے کیریئر کا آغاز اُس وقت کیا جب پاکستان میں عمران خان کی حکومت قائم تھی اور زلفی بخاری اوورسیز پاکستانیوں کے مشیر تھے۔ ان دنوں متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی مزدوروں تک حکومت پاکستان کے پیغام اور خدمات کو مؤثر انداز میں پہنچانے کے لیے ایک مربوط مہم چلائی گئی، جس کا انتظامی اور حکمتِ عملی پہلو سنبھالنے والے فرد تھے — فرید جیلانی۔
وژن: ریمیٹینس کو صنعت میں تبدیل کرنا
فرید جیلانی کا بنیادی پیغام اور مشن ہمیشہ ایک ہی رہا ہے:
“اوورسیز پاکستانی مزدور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ہمیں ان کی محنت کو صرف ترسیلاتِ زر سمجھنے کے بجائے ایک منظم، محفوظ اور باعزت مالیاتی صنعت میں ڈھالنا ہوگا۔”
ان کا ماننا ہے کہ پاکستان کو نہ صرف قانونی ذرائع سے ریمیٹینس کے فروغ پر توجہ دینی چاہیے، بلکہ مزدور طبقے کو روانگی سے پہلے باقاعدہ تربیت فراہم کرنی چاہیے — تاکہ وہ باخبر، بااختیار اور محفوظ مالی فیصلے لے سکیں۔
تعلیم، تربیت اور ڈیجیٹل آگاہی پر زور
فرید جیلانی، جو آج پاکستان کے معروف ریمیٹینس مارکیٹنگ ماہرین میں شمار ہوتے ہیں، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جیسے ہم اپنی برآمدات (exports) کے لیے معیار پر سمجھوتا نہیں کرتے، اسی طرح ہمیں “افرادی قوت” کی برآمد کے لیے بھی معیار، تربیت اور رہنمائی کو لازم بنانا ہوگا۔
وہ تجویز کرتے ہیں:
-
روانگی سے پہلے لازمی تربیتی پروگرام
-
قانونی ذرائع سے ریمیٹینس بھیجنے کی رہنمائی
-
مالی منصوبہ بندی اور حقوق کی آگاہی
-
ڈیجیٹل فنانس اور موبائل بینکنگ کی تربیت
-
دیہی و کم تعلیم یافتہ افراد تک بینکنگ رسائی
پیشہ ورانہ سفر: ایک اشتہاری ماہر سے عالمی مشاور تک
پاکستان سے ایم بی اے کرنے کے بعد، فرید نے متحدہ عرب امارات میں برانڈنگ اور کمیونیکیشن کے شعبے میں کام کا آغاز کیا۔ اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور کمیونٹی فہم کے باعث وہ جلد ہی کامیاب مارکیٹنگ کمپینز کا حصہ بن گئے۔
تاہم ان کی اصل شناخت اس وقت بنی جب پاکستان کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی جاز کیش نے انہیں متحدہ عرب امارات میں ریمیٹینس پارٹنرشپ فسیلیٹیٹر مقرر کیا۔ یہ اعتماد دیگر بینکوں اور اداروں کے لیے بھی اعتماد کا باعث بنا۔
عالمی سطح پر خدمات
2016 کے بعد سے اب تک، فرید جیلانی نے نہ صرف متحدہ عرب امارات بلکہ سعودی عرب، قطر، بحرین، اومان، اردن، کینیا اور یورپ میں بھی پاکستانی برادری کے لیے مالیاتی آگاہی، بینکنگ رابطے، اور قانونی ذرائع کی ترغیب کے لیے سینکڑوں پروگرام، سیشنز اور روڈ شوز منعقد کیے ہیں۔
وہ بلو کالر طبقے میں مالی رویوں کو سمجھنے والے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں، اور اکثر فورمز، سیمینارز، اور حکومتی مشاورت کا حصہ ہوتے ہیں۔
ایک تاریخی کامیابی، لیکن ابھی سفر باقی ہے
پاکستان نے حالیہ برسوں میں 38.3 ارب ڈالر کی ریکارڈ ریمیٹینس حاصل کی ہے — ایک ایسی کامیابی جس کا کریڈٹ فرید جیسے ماہرین کو بھی جاتا ہے، جو مسلسل آگاہی، اعتماد سازی، اور جدید بینکاری نظام کی ترویج میں سرگرم ہیں۔
لیکن ان کا کہنا ہے:
“اصل کامیابی اُس دن ہوگی جب پاکستان ریمیٹینس کو ایک مکمل انڈسٹری کے طور پر تسلیم کرے گا — ایکو سسٹم کے ساتھ، تربیت، تحفظ، اور پالیسی سپورٹ کے ساتھ۔”
فائنل پیغام
فرید جیلانی کی کہانی صرف ایک شخص کی کامیابی نہیں، بلکہ ہزاروں محنت کشوں کی امیدوں، دعاؤں اور قربانیوں کی نمائندگی ہے۔ اُن کا مشن یہ ہے کہ جو شخص ہزاروں میل دور کام کر کے پیسہ وطن بھیجتا ہے، وہ صرف ترسیلات کا ذریعہ نہیں، بلکہ پاکستان کا سرمایہ ہے — جسے عزت، تحفظ، اور ترجیح ملنی چاہیے۔