جمعرات,  26 جون 2025ء
بجلی کے نرخوں میں کمی: ایک مثبت پیش رفت یا وقتی ریلیف؟

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

ملک میں توانائی کے شعبے سے متعلق حالیہ خوشخبری جس میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اوسطاً ڈیڑھ روپے فی یونٹ کمی کی منظوری دی ہے، یقینا عام صارفین کے لیے ایک اطمینان بخش خبر ہے۔ یہ کمی یکم جولائی 2025ء سے نافذ العمل ہوگی اور گھریلو صارفین کو 34 روپے فی یونٹ کی نئی قیمت پر بجلی فراہم کی جائے گی، جو کہ پہلے 37.64 روپے فی یونٹ تھی۔ یہ تبدیلی ایسے وقت میں کی گئی ہے جب گزشتہ تین سالوں میں بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو ملا۔

پاکستان میں توانائی کے شعبے کی تاریخ مختلف حکومتوں کی پالیسیوں، بیرونی قرضوں، توانائی بحران، کرپشن اور ٹرانسمیشن کے مسائل سے جڑی ہوئی ہے۔ 1990 کی دہائی میں آئی پی پیز (IPPs) کی آمد نے جہاں بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا، وہیں مہنگے معاہدوں نے ملکی معیشت پر بوجھ بھی ڈالا۔ 2000 کی دہائی میں نجکاری اور لوڈ شیڈنگ کی لہر نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ گزشتہ تین سالوں میں عالمی سطح پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ملکی کرنسی کی گراوٹ اور اندرونی انتظامی بدحالی نے بجلی کے نرخوں کو بلند ترین سطح پر پہنچا دیا تھا۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر نگرانی قائم ٹاسک فورس کی آٹھ ماہ کی محنت کے بعد بجلی کی قیمت میں یہ کمی سامنے آئی ہے۔ تجزیاتی طور پر دیکھا جائے تو یہ فیصلہ کئی سطحوں پر قابلِ تعریف ہے جن میں سرفہرست گھریلو اور کمرشل صارفین کیلئے ریلیف شامل ہے۔ گھریلو صارفین کیلئے فی یونٹ قیمت 37.64 سے کم ہو کر 34 روپے ہوئی۔ کمرشل صارفین کیلئے 48.19 سے کم ہو کر 40.55 روپے فی یونٹ اور وزیراعظم کی طرف سے 7 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان اہم قدم ثابت ہوا ہے۔ یکساں ٹیرف کا نفاذ اچھی خبر ہے۔یہ اقدام کے-الیکٹرک (KESC) اور ڈسکوز (DISCOs) کی تخصیص ختم کرکے پورے ملک میں یکساں نرخ رائج کرنے کی طرف اشارہ ہے، جو کہ وفاقی اتحاد اور توانائی پالیسی کی ہم آہنگی کی علامت ہے۔ دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے کی رعایتوں کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ لاکھوں یونٹ کی مفت یا سبسڈی والی بجلی کو ختم کرنے کی تجویز انصاف پر مبنی نظام کی طرف قدم ہے، جہاں غریب اور متوسط طبقہ ہی نہیں بلکہ امیر طبقہ بھی اصل لاگت ادا کرے۔

یہ حقیقت ہے کہ بجلی کے بلوں پر محض نرخ ہی نہیں بلکہ متعدد قسم کے ٹیکسز، ٹی وی فیس، فیول ایڈجسٹمنٹ، سروس چارجز اور مزید سرکاری محصولات بھی شامل ہوتے ہیں جو صارف کو حقیقی نرخ سے کہیں زیادہ قیمت ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

مزید برآں، بجلی کی پیداوار کا 60 فیصد دارومدار درآمدی ایندھن (تیل و گیس) پر ہے جس پر ہر سال 15 سے 20 ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے بجلی کے نرخ عالمی منڈی سے جڑے رہتے ہیں۔ اس لیے اصل حل قومی توانائی وسائل جیسے پانی، سورج، ہوا اور کوئلے کے بہتر استعمال میں مضمر ہے۔

بجلی کے بلوں میں شامل غیر ضروری محصولات، خاص طور پر ٹی وی فیس جیسے چارجز کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ پن بجلی، سولر اور ونڈ انرجی کے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیے جائیں۔توانائی کے شعبے میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور IPPs کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی جائے۔توانائی کے مؤثر استعمال اور ضیاع کو روکنے کیلئے عوامی سطح پر مہمات چلائی جائیں۔

بجلی کے بنیادی نرخوں میں کمی ایک قابلِ ستائش قدم ہے لیکن اسے ایک وقتی ریلیف سمجھنا درست ہوگا جب تک اس کے پیچھے پائیدار اصلاحات نہ ہوں۔ بجلی کے نرخ کم کرنے کے ساتھ ساتھ پیداوار، ترسیل، تقسیم اور مالیاتی نظام میں جامع اصلاحات ضروری ہیں تاکہ پاکستان ایک سستی، مستحکم اور پائیدار توانائی کے دور میں داخل ہو سکے۔

مزید خبریں