جمعرات,  26 دسمبر 2024ء
کان پر پلستر

شہریاریاں۔۔تحریر: شہریار خان

کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر اس طرح دہرائے گی یہ سوچا نہیں تھا۔۔ ہمارے پیارے قیدی نمبر 420کی طرح پیارے ٹرمپ کو بھی گولی چھو کر گزر گئی۔ فرق صرف منہ اور ٹانگ کا ہے۔ کیونکہ قیدی ٹرک کی چھت پر تھا تو ٹانگ پر گولی مارنا ہی مناسب تھا یہاں ٹرمپ سٹیج پر تھا تو اسے کان پر ہی گولی لگنا تھی بلکہ چھونا تھی۔

ان دونوں واقعات کے بعد ایک بات تو واضح ہے کہ سنائپر (جس نے گولی چلائی) انتہائی ناتجربہ کار اور پاجی تھا۔۔ پاکستان والا تو ایسا پاجی تھا کہ آواز صرف ایک گولی کی آئی تھی مگر کنٹینر پر چڑھے کئی بے چاروں کے کپڑوں سے گولیاں نکل گئی تھیں، سب بے چاروں کو نئے سوٹ سلوانے پڑے تھے۔۔

بقول قیدی نمبر چار سو بیس، سینیٹر فیصل جاوید کے چہرے کا بوسہ لیتے ہوئے گولی نکلی مگر شام کو وہ ٹھیک ٹھاک پھر رہے تھے، ظاہر ہے جسے اللہ رکھے۔۔ نیچے کھڑے ہوئے ایک شخص نے پستول والے کو پکڑنے کی کوشش کی اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

اب یہاں پیارے ٹرمپ کے کان سے گولی نکل گئی، وہ بھی بچ گئے مگر نیچے بیٹھے ہوئے ایک شخص کو گولی لگ گئی اور وہ بھی مارا گیا۔۔ وہاں ٹرمپ کا ابھی اعلان باقی ہے جس میں وہ بتائے گا کہ اس کے کتنے ساتھیوں کے کپڑوں میں سے گولیاں نکل گئی تھیں۔۔ کتنوں کے سوٹ خراب ہوئے اور کتنوں کے چہروں کا بوسہ لے کر گولی نکل گئی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی زندگی میں کوئی ہسپتال نہیں بنایا تھاورنہ اس کے کان پر بھی بڑا سا پلستر ہو جاتا اور ڈاکٹر بتاتے کہ پیارے ٹرمپ کے کان کی کتنی ہڈیاں فریکچر ہوئی ہیں۔۔ اب کم بخت سنائپر نے گولی بھی ایسی جگہ ماری ہے کہ بے چارہ وہیل چیئر پر بھی نہیں بیٹھ سکتا ورنہ ہر جگہ وہیل چیئر پہ بیٹھ کر جاتا۔

ٹانگ پر پلستر چڑھا ہو تو پھر کرسی پر لات رکھ کر پریس کانفرنس کرنے کا اپنا ہی مزا ہے۔۔۔ جب ٹانگ سے پلستر اترتا تو پھر اس کے ساتھ امریکی اینکر اور صحافی اس پلستر کو چوم کر اس کے ساتھ عقیدت بھری نگاہوں کے ساتھ تصاویر بنواتے۔۔ اس یادگار پلستر کے ساتھ وی لاگ بناتے۔۔ کاش مگر ایسا کچھ نہیں ہو پائے گا کیونکہ پیارے ٹرمپ نے امریکا میں کوئی کینسر ہسپتال ہی نہیں بنایا۔۔

یہاں تو ہم اس کا نظارہ کر چکے کہ کس طرح پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کی ٹانگ سے پلستر اترا تو ہمارے کئی یو ٹیوبرز اور کئی اینکرز قطار بنا کر اس طرح کھڑے تھے جس طرح لوگ داتا دربار یا بری امام پر چاولوں کی دیگ دیکھ کر کھڑے ہوتے ہیں اور پلستر کو ہاتھ میں لے کر اس طرح چومتے ہوئے تصاویر بنوائیں جیسے بنوانے کا حق تھا۔

اس کا انہیں بہتر یوٹیوب فالوونگ اور ملین ویوز کی صورت میں ملا، اس لیے انہوں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔۔ امریکا اور پاکستان میں فرق یہاں سے بھی واضح ہو گیا کہ ٹرمپ نے کان پر چھوٹی سی پٹی ہی لگوائی، ہمارے قیدی نمبر 420 کو خدانخواستہ اگر کان پر گولی لگی ہوتی تو اللہ جانے شوکت خانم کے ڈاکٹر کیسے اس کان پر پلستر چڑھاتے؟۔

ڈاکٹر فیصل سلطان اور ڈاکٹر یاسمین راشد کو تو نواز شریف کے پلیٹلیٹس کا اندازہ نہیں ہو سکا اور انہوں نے نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے بھجوانے کے بعد جانا کہ پلیٹلیٹس کی کمی تو صرف بہانہ تھا، لندن کا دورہ نشانہ تھا۔۔ مگر اس وقت تک بہت دیر ہو گئی تھی۔۔
اب اگر ڈاکٹر فیصل سلطان سابق صدر ٹرمپ کے ڈاکٹر ہوتے تو ٹرمپ کو کسی صورت اس طرح انتخابی مہم میں بغیر پلستر کے نہ گھومنے دیتے۔۔ اور اگر وہ پلستر کان پر چڑھوانے پر تیار نہ ہوتے تو کم از کم پٹی اتنی ضرور کر دیتے کہ صرف آنکھ کان اور منہ ہی کھلا رہ جاتا تاکہ لوگ افسوس تو کر سکتے کہ گولی سے کتنا نقصان ہوا ہے۔

اگر صنم جاوید بھی ٹرمپ کی دوست ہوتیں یا کارکن ہوتیں تو وہ گولی چلانے والے کے خاندان کو بھی گندی گندی گالیاں دیتی اور اپنے ساتھ مزید کارکنوں کو لے کر پینٹاگون میں گھس جاتیں اور وہاں آگ لگاتی، پینٹاگون کے افسران کو ایسی ایسی بائیولوجیکل گالیاں دیتی کہ وہ بھی کسی ایسے کام سے توبہ کر لیتے۔

مزید پڑھیں: ابو بچاؤ مہم جاری ہے۔

ویسے ہمارا کپتان بھی بہت گرا ہوا ہے کبھی کنٹینر سے گر جاتا ہے کبھی کنٹینر پہ گولی لگنے سے گر جاتا ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ بار بار گرنے کے باوجود گراوٹ میں کوئی فرق نہیں آیا۔۔ ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ ہی گر کے دکھایا ہے۔۔ اسی لیے تو سب مانتے ہیں کہ ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان۔۔

چھ جنوری 2021 کو کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والے سینکڑوں مظاہرین کے حوالہ سے عدالتیں بہت سخت فیصلے کر رہی ہیں اور ان میں بہت ہی اہم افراد بھی شامل ہیں مگر عدالتیں ان کے ساتھ کوئی رعایت کرنے کو تیار نہیں ہیں، اس کے لیے بھی ٹرمپ کو قیدی نمبر 420 سے کچھ سیکھنا ہو گا۔۔

اگر ٹرمپ صدر بنتے ہیں تو وہ اپنے بندے عدالتوں میں بھرتی کریں اور اگر وہاں قانون اس کی اجازت نہیں دیتا تو پھر اپنے کیس اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل کروانے کی درخواست دائر کر دیں، یہاں شہدا کے مجسمے شہید کرنے والے بھی بے قصور ہیں، یہاں بلیو ایریا کے درختوں کو آگ لگانے بھی بے قصور، یہاں کور کمانڈر ہاؤس میں گھسنے والے بھی معصوم۔۔

یہاں آپ کو وکیل کی قابلیت کی ضرورت نہیں، یہاں بس آپ کا تعلق پی ٹی آئی سے ہونا چاہیئے پھر وکیل کو بھی دلائل مفت میں دینے کی ضرورت نہیں پڑتی، کیس کوئی بھی لے کر عدالت جائے ریلیف جس کا مقدر ہے وہ ہمارا لیڈر ہے جو ڈٹ کے کھڑا ہے۔
یہاں آپ کو گولی نہ بھی لگے، یہاں آپ کوئی بھی قانون توڑ لیں، یہاں آپ اپنی پارٹی کا دفتر بنانے کے لیے ساتھ مرلے کے پلاٹ کے ساتھ کئی کنال پر قبضہ کر لیں تو بھی کوئی آپ کو کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اس لیے انصاف حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد تشریف لائیں ورنہ ہمارے کچھ منصفین امریکا کے دورے پر ہیں، ان سے کچھ سیکھ لیں۔۔ آپ کو سہولت ہو گی۔۔ اور پلیز کان پر بڑا سا پلستر ضرور لگوائیں، اس سے آپ کی انتخابی مہم کو چار چاند لگ جائیں گے۔۔۔

مزید خبریں