جمعرات,  26 دسمبر 2024ء
منحوس آواز /جو روح پر گراں گزرتی ہے

سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

منحوس آواز /جو روح پر گراں گزرتی ہے

آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار ،میں چلاؤں ہائے دل

ایسی آوازیں جو ہماری سماعتوں پر نہایت گراں گزرتی ہیں

جیسے سگ کی آواز
جھینگر کی
اور گدھے کی آواز

اسی طرح آج کل ٹیلی فون پر جبرا ایک رنگ ٹون سنائی جاتی ہے

غریبوں ،عام لوگوں کے لیے ریلیف کا اعلان

آج کل آپ کسی کو بھی کال ملائیں
تو آپ کو ایک تکلیف دہ اور روح کو تڑپا دینے والی آواز سنائی دیتی ہے

غریبوں، عام آدمی کے لیے ہم نے، جو 100 یونٹ سے 200 یونٹ استعمال کرتے ہیں، تین ماہ کا ریلیف دیا ہے

یہ آواز سن کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے

آپ کا فوری رد عمل یہ ہوسکتا ہے کہ موبائل اٹھا کے زمین پہ مار دیں

دیکھیں ،اس طرح کریں گے تو آپ کا اپنا ہی نقصان ہوگا

ایسے بے حس اور نیچ سیاست دانوں کا کچھ نہ بگڑے گا

میں تو یہ کرتا ہوں کہ کال ملا کے فون کو اپنے کان سے دور کر کے دیکھتا ہوں

اگر دوسرا شخص فون اٹھا لے تو بات کرتا ہوں

ہم نے شہرت کے لیے بہت سارے نیچ طریقے دیکھ رکھیں ہیں

آٹے کے تھیلے پر اپنی تصویر چھپا دینا

کسی پروجیکٹ کی شروعات یا تکمیل پر روڈز پر عوام کے ٹیکسوں سے کروڑوں روپے کے بینرز لگوا دینا

زلزلے اور آسمانی آفات پر متاثرین کو امدادی رقم یا سامان دیتے ہوئے تصویریں بنوانا اور پھر انہیں چھپانا

اخبار میں لوئر ہاف پر عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس لے کر ،اپنی منحوس تصویر لگا دینا

آپ ان سب چیزوں سے بچ سکتے ہیں
آپ روڈ پہ جاتے ہوئے بینر کو صرف نظر کر سکتے ہیں

اخبار کو اٹھا کے سائیڈ پہ رکھ سکتے ہیں

میں نے تو اس کا بہترین مصرف یہ نکالا ہے کہ اپنی ملازمہ کو
ان کی تصویروں والے اخبار دے کے کہتا ہوں
جاؤ اس سے ٹوائلٹ صاف کر لو

اور ویسے بھی اس میسج میں تیکنیکی طور پر بھی غلطیاں ہیں

میڈیا پرسن ہونے کے ناطے، سب سے پہلی غلطی ہے

کہ آپ اپنی بے بس عوام کی دل شکنی اور عزت نفس مجروح کر رہے ہیں

انہیں غریب کہہ کر
عام آدمی کہہ کر

دوسری ٹیکنیکل غلطی یہ ہے کہ اگر اس طرح کا کسی کو پیغام دینا ہو
جس سے عوام کو تھوڑا ریلیف دینے کا چونا لگایا گیا ہو
تو ایسا میسج
کسی اچھی ، نیک اور شہرت یافتہ شخصیت سے دلانا چاہیے
جیسا کہ ایدھی صاحب تھے

یا عمران خان

یا کوئی ایسا شخص ،جس کی سماج میں عزت ہو

ایسے لٹیرے اور بنارسی ٹھگوں سے ایسا بیان دلوانا ان کے نالائق مشیروں کا ہی کارنامہ ہے
جو اپنے راہنما کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے

جتنی گالیاں اس نام نہاد لیڈر کو یہ وائس میسج ریکارڈ کرا کے اور لوگوں کو زبردستی سنوانے پر پڑی ہیں
میں نہیں سمجھتا کہ اس سے پہلے اتنی کثیر تعداد میں روزانہ
ہر لمحے
ان کو گالیاں پڑی ہوں

اور یہ غریبوں اور عوام کو ریلیف دینا ایسے ہی ہے

جیسے کوئی آپ کے سینے میں خنجر سے کئی وار کرے اور پھر اس کے بعد آپ کی مرہم پٹی کرا کے کہے

دیکھو میں تمہیں آرام دے رہا ہوں
تمہارے زخم ٹھیک کر رہا ہو

آرمی چیف سے درخواست ہے کہ اگر اس طرح کے نمونے وزیراعظم ہم پر مسلط کر ہی دیے گئے ہیں
تو برائے مہربانی 25 کروڑ عوام کو مزید تکلیف سے دوچار نہ کروائیں
اور ان سے کہیں کہ اگر کم سے کم عذاب وزیراعظم سے جان نہیں چھوٹتی تو اس رنگ ٹون کو ختم کر دیا جائے

کیونکہ چند دنوں میں، بے حساب لوگ ،یہ آواز سن سن کر نفسیاتی مریض ہوا چاہتے ہیں

کون جانتا تھا کہ 1949 اور 1951 میں بر صغیر کے ایک غریب و پسماندہ ملک پاکستان میں
ایک شریف کے گھر میں (صرف نام کے شریف) پیدا ہونے والے دو معصوم مگر منحوس بچے
آگے چل کر پاکستانی قوم کے لیے عذاب ثابت ہوں گے اور ان کا خاندان اور آنے والی نسلیں
پاکستانی قوم کو جونک کی طرح چمٹ کر قیامت تک ان کا خون چوستی رہے گی،

اب شاید اس۔ ۔ ۔ ۔ آواز سے جان چھڑانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو، پرزور تحریک چلانا پڑے

آعندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار ،میں چلاؤں ہائے دل

مزید خبریں