اتوار,  06 اکتوبر 2024ء
پی ایم ایل این لیڈر شپ عوام دوست بجٹ کے لیے کوشاں

پی ایم ایل این لیڈر شپ عوام دوست بجٹ کے لیے کوشاں ہے اس مقصد کے لیے پی ایم ایل این کے لیڈر شپ نے اتحادی جماعتوں کی تجاویز کی منظوری دے دی ہے۔

یہ حکومت کا پہلا بجٹ ہے اور پی ایم ایل این کے نومنتخب صدر نواز شریف عوام کے لیے ریلیف چاہتے ہیں۔مسلم لیگ ن کی قیادت نے پاکستان کے معاشی بحران پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک کے بہتر مستقبل کے لیے انہوں نے سیاست پر سمجھوتہ کیا۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی خبریں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے بہت مثبت ہیں۔ آئی ایم ایف حکومت کی موجودہ معاشی پالیسی سے خوش ہے۔ مسلح افواج کی قیادت بھی معاشی بحالی کے لیے حکومت کی مدد کر رہی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہر چیز کی قیمتیں زیادہ ہیں لیکن گزشتہ دنوں قیمتوں میں کمی بجٹ سے قبل عوام کے لیے اچھی خبر ہے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے بارے میں سفارشات کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف , وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں مختلف تجاویز کی منظوری دی گئی۔ جاتی امرا میں مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی قیادت میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر مشاورتی کے لیے 3 گھنٹے طویل اجلاس ہوا۔ جس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار ، وزیر اعلیٰ پنجاب، وفاقی وزرا ڈاکٹر مصدق ملک، اویس لغاری، رانا تنویر حسین، عطا تارڑ، جام کمال، رانا تنویر حسین سمیت دیگر شریک ہوئے۔ اجلاس میں سینیٹر پرویز رشید اور دیگر سینئر رہنما بھی شریک ہوئے، اس میں وفاقی و صوبائی محکموں کے مختلف سیکریٹریز نے بھی شرکت کی۔ مشاورتی اجلاس میں آئندہ بجٹ میں عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے کے اقدامات کی تجاویز پر تبادلہ خیال ہوا۔وفاقی و صوبائی سطح پر عوام کو پر ممکن ریلیف دینے کے حوالے سے اقدامات کے بارے میں تجاویز لی گئیں۔

اجلاس میں شرکت کرنے والے وفاقی وزرا اور سیکریٹریز نے اپنے اپنے محکموں کی جانب سے ممکنہ ریلیف اقدامات کی تجاویز پیش کیں جب کہ پارٹی قائدین نے بھی عوام کو ریلیف دینے کے بارے میں اپنی تجاویز پیش کیں۔اجلاس میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے اپنی صوبائی حکومت کی جانب سے بھرپور ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات تجویز کیے۔ نواز شریف نے بجٹ مشاورتی اجلاس میں اپنے وسیع تر سیاسی و انتظامی تجربے کی بنیاد پر ہدایات بھی جاری کیں۔اجلاس میں شامل پارٹی رہنماؤں نے سرکاری اخراجات کو کم کرنے پر اتفاق کیا۔ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کرتے ہوئے پیٹرول 15 روپے 39 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 7 روپے 88 پیسے کمی کا اعلان کیا۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے منظوری کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا۔وزارت خزانہ سے جاری اعلامیے کے مطابق حکومت نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 15روپے 39 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 7روپے 88پیسے کمی کا اعلان کیا۔اس کے علاوہ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 7 روپے 54 پیسے اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 9روپے 86 پیسے کمی کی گئی ہے۔قیمتوں میں کمی کے بعد پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 273 روہے 10 پیسے ہو گئی ہے جبکہ فی لیٹر ہائی اسپیڈ ڈیزل 274 روپے 8 پیسے میں دستیاب ہو گا۔اسی طرح مٹی کا تیل فی لیٹر 173 روپے 48 پیسے میں دستیاب ہو گا جبکہ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 161روپے 17 پیسے مقرر کردی گئی ہے۔اس سے قبل 30 اپریل کو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 5 روپے 45 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 8 روپے 42 پیسے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا تھا۔اس سے 15دن قبل حکومت نے 16 اپریل کو پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 4 روپے 53پیسے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 8 روپے 14 پیسے فی لیٹر کا اضافہ کیا تھا۔گزشتہ 15 دنوں کے دوران عالمی مارکیٹ میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت بالترتیب 3.25 ڈالر اور 2.10 ڈالر فی بیرل کم ہوئی ہے، جبکہ اس سے پچھلے 15 دنوں میں 8.7 ڈالر اور 4.3 ڈالر فی بیرل کی تنزلی ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ اس وقت پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 273 روہے 10 پیسے اور فی لیٹر ڈیزل 274 روپے 8 پیسے میں دستیاب ہے۔ اندرون ملک فریٹ ایکویلائزیشن مارجن (آئی ایف ای ایم) کے حتمی حساب کے بعد پیٹرول کی قیمت میں 7 روپے 25 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 6 روپے 25 پیسے کی کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے، پیٹرول پر امپورٹ پریمیم بھی گزشتہ 15 دنوں کے دوران 10.30 ڈالر فی بیرل سے تقریباً 7 فیصد تنزلی کے بعد 9.70 ڈالر فی بیرل پر آگیا ہے۔

تاہم امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں گزشتہ 15 دنوں کے دوران 10 پیسے کی کمی آئی ہے، اس طرح پیٹرول کی موجودہ قیمت 273 روپے 10 پیسے میں میں 7 روپے فی لیٹر کی کمی کا تخمینہ ہے۔ عالمی مارکیٹ میں ڈیزل کی قیمت بھی 2.10 ڈالر فی بیرل گھٹ گئی ہے، جبکہ پاکستان اسٹیٹ آئل کی جانب سے ادا کردہ بینچ مارک امپورٹ پریمیم 6.50 ڈالر فی بیرل پر برقرار ہے، لہٰذا ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 6 روپے 25 پیسے کی کمی ہوسکتی ہے، تاہم اس کا انحصار آئی ایف ای ایم کے حتمی حساب و کتاب پر ہے، اس وقت ڈیزل کی قیمت 274 روپے 8 پیسے ہے۔ حکام نے بتایا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمت تقریباً 95 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر تقریباً 98.27 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے، جبکہ ڈیزل کی قیمت 99.12 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 97 ڈالر پر آ گئی ہے، جس کے نتیجے میں 16 مئی سے ملک بھر میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی بالترتیب 15.93 روپے اور 7.88 روپے فی لیٹر کی کمی کا اعلان کیا گیا تھا۔ حکومت پہلے ہی پیٹرول اور ڈیزل دونوں پر 60 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی حاصل کر رہی ہے، جو قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ قابل اجازت حد ہے، جبکہ 31 مارچ کو ختم ہونے والے پہلے ابتدائی 9 ماہ کے دوران حکومت اس مد میں 720 ارب روپے اکٹھا کر چکی ہے، حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے تحت رواں مالی سال کے دوران پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی مد میں 869 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھتی رہی ہے، پٹرول زیادہ تر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ، چھوٹی گاڑیوں، رکشوں اور دو پہیوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کا براہ راست اثر متوسط ​​اور نچلے متوسط ​​طبقے کے بجٹ پر پڑتا ہے، دوسری طرف ڈیزل کے نرخوں کا بڑھنا مہنگائی زیادہ بڑھنے کی وجہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ زیادہ تر بھاری ٹرانسپورٹ گاڑیوں، ٹرینوں، اور زرعی انجن جیسے ٹرک، بسیں، ٹریکٹر، ٹیوب ویل اور تھریشر میں استعمال ہوتے ہیں، نتیجتاً خاص طور پر سبزیوں اور دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس وقت حکومت پٹرول اور ڈیزل پر تقریباً 82 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کر رہی ہے۔

اگرچہ تمام پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس صفر ہے، تاہم دونوں مصنوعات پر 60 روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی وصول کی جا رہی ہے۔مہنگائی کم کرنے کے لیے حکومت نے آئندہ بجٹ کو عوام دوست بنانے کی تیاری کر لی ہے بلاشبہ مہنگائی کا عفریت پھنکار رہا ہے جس نے عوام کی زندگی اجیرن بناکر رکھ دی ہے ۔آئی ایم ایف کی موجودگی میں حکومت عوام دوست بجٹ دے پائے گی؟حکومت کے لیے منتظر بڑے چیلنجز میں معیشت سرفہرست ہے، کیا نئی حکومت عوام کو کوئی ریلیف دے سکے گی؟ مہنگائی کم کر سکے گی؟ عوام دوست بجٹ دے پائے گی؟ کون سے سخت فیصلے ہیں جو انھیں کرنے پڑیں گے؟ آئندہ مالی سال 25-2024 کے لیے وفاقی بجٹ اگلے ماہ 7 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے جس میں 9300 ارب خسارے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔آئندہ مالی سال 25-2024 کے لیے وفاقی بجٹ اگلے ماہ 7 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے جس میں 9300 ارب خسارے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ اگلے ماہ 7 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ بجٹ میں وفاق کے اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 16 ہزار 700 ارب روپے ہو سکتا ہے اور مالیاتی خسارہ 9300 ارب رہنے کا امکان ہے۔ بجٹ میں وفاق کے اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 16 ہزار 700 ارب روپے ہو سکتا ہے جس میں سود اور قرضوں پر اخراجات کا تخمینہ 9 ہزار 700 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ بجٹ میں سبسڈیز کا ابتدائی حجم 1500 ارب روپے ہو سکتا ہے۔ بجٹ میں ٹیکس آمدن کا ابتدائی تخمینہ 11 ہزار ارب روپے سے زائد ہوسکتا ہے جس میں ڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں 5300 ارب روپے جمع ہونے کا امکان ہے جب کہ 680 ارب روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں جمع ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ میں سیلز ٹیکس سے 3850 ارب روپے سے زائد، کسٹم ڈیوٹی مد میں 1100 ارب روپے سے زائد جمع ہونے کا امکان ہے جب کہ نان ٹیکس آمدن کا ابتدائی تخمینہ 2100 ارب روپے ہو سکتا ہے۔ بجٹ میں پٹرولیم لیوی مد میں 1100 ارب روپے جمع ہونے کا ابتدائی تخمینہ لگایا گیا ہے۔بجٹ میں وفاق کے اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 16 ہزار 700 ارب روپے ہو سکتا ہے جس میں سود اور قرضوں پر اخراجات کا تخمینہ 9 ہزار 700 ارب روپے لگایا گیا ہے۔بجٹ میں سبسڈیز کا ابتدائی حجم 1500 ارب روپے ہو سکتا ہے۔بجٹ میں سبسڈیز کا ابتدائی حجم 1500 ارب روپے ہو سکتا ہے۔ پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ سے متعلق اعداد و شمار کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کو وفاقی بجٹ کے حجم، اخراجات، ترقیاتی بجٹ، محاصل اور سبسڈیز کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ وفاقی بجٹ میں اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 24 ہزار 710 ارب روپے لگایا گیا ہے جب کہ حکومت کے جاری اخراجات کے لیے 22 ہزار 37 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 2 ہزار 590 ارب روپے ہو گا، وفاقی ترقیاتی پروگرام 890 ارب روپے اور صوبائی ترقیاتی بجٹ ایک ہزار 700 ارب روپے کا ہوگا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر ترقیاتی پروگرام کو آگے بڑھایا جائے گا، دفاع کے لیے 2 ہزار 152 ارب روپے مختص ہوں گے۔

سود اور قرضوں پر اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 9 ہزار 787 ارب روپے ہے، 8 ہزار 517 ارب روپے مقامی اور ایک ہزار 158 ارب روپے غیر ملکی بیرونی قرض پر سود ہوگا۔ آئندہ وفاقی بجٹ میں سبسڈی کا حجم ایک ہزار 509 ارب روپے لگایا گیا ہے، توانائی کے شعبے کے لیے سبسڈیز کا ابتدائی حجم 800 ارب روپے تک ہے۔ بجٹ دستاویز میں بتایا گیا ہےکہ آئندہ مالی سال حکومت کی مجموعی آمدن کا تخمینہ 15 ہزار 424 ارب روپے ہے، آئندہ مالی سال ایف بی آر کے ٹیکس محاصل کا تخمینہ 11 ہزار 113 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق براہِ راست ٹیکسوں کا حجم 5 ہزار 291 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے، وفاقی ایکسائز ڈیوٹی 672 ارب روپے اور سیلز ٹیکس 3 ہزار 855 ارب روپے رکھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں ایک ہزار 296 ارب روپے وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے جب کہ نان ٹیکس آمدن کا ابتدائی تخمینہ 2 ہزار 11ارب روپے تک لگایا گیا ہے۔ بجٹ میں پیٹرولیم لیوی کی مد میں 1080 ارب روپے کی آمدنی کا اندازہ لگایا گیا ہے، گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سر چارج کی مد میں 78 ارب روپے آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ آئندہ مالی سالکا وفاقی بجٹ 7 جون کو قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کا امکان ہےآئندہ بجٹ عوام دوست ہونا چاہیے، معاشی خوشحالی ملک میں سیاسی استحکام سے منسلک ہے، معاشی استحکام کے بغیر عوام کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔

مزید خبریں